Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sajjad Aheer
  4. Sanwal Mor Muharan

Sanwal Mor Muharan

سانول موڑ مہاراں

خواجہ غلام فرید کی مشہور کافی "سانول موڑ مہارا ں" اور استاد سلامت علی خان۔ سادہ الفاظ میں، اس سے ذیادہ اور کیا، اور وہ بھی اس قحط الرجال میں۔ یا پھر مزید سادہ الفاظ میں، آپ اسے تان سین اور امیر خسرو کا ری یونین کہ سکتے ہیں۔ بہر کیف، یہ ایک کیفیت ہے اور اپنے آپ میں ایک جہانِ معنی ہے۔ یہ"کافی"بڑے بڑے نامور لوگوں نے گائی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ تمہید شاید طویل بھی اسی لئے ہوگئی کہ، زیرِبحث شخصیات کافی بڑی ہیں۔ خواجہ غلام فرید کی مذکورہ "کافی"سرائیکی زبان میں ہے اور اگر آپ کو صوفیانہ کلام میں دلچسپی ہو تو، یہ آپ کے لئے مثنوی روم سے کم پر کیف تجربہ نہیں ہے۔

"سانول موڑ مہاراں " کا مطلب ہے "اے میرے محبوب، میرے دوست، اپنے اونٹ کی مہار موڑ اور وآپس لوٹ آ"۔ مہار، سرائیکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اونٹ کی نکیل، جس سے"ساربان" یا اونٹ سوار، اونٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اور صحرائی علاقوں میں آمدورفت کا ایک اہم ذریعہ اونٹ تھے، اسی لئے اس سواری اور اس سے جڑے لوازمات، محبوب شاعرانہ استعارہ رہے ہیں۔ صاحبو آج کے معروضات کا سانول، پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی، صحیح معنوں میں ہر فرد کے انفرادی حقوق، معاشرے کے اجتماعی آئینی حقوق کی بحالی، ایک پرامن، آزاد اور پروگریسیو معاشرے کا قیام اور آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔

ایک ایسا ملک، جس کا اقوام عالم سے باہمی احترام اور خلوص کا تعلق ہو، یہ سانول فی الوقت ہم سے روٹھ کے جا چکا ہے۔ انسانی تا ریخ میں ایسے بہت سارے ہیروز گذرے ہیں، جنہوں نے خدا کی دی ہوئی مختصرمہلت میں، اس روٹھے سانول کو اپنے لوگوں کے لیے منایا، اور خدا کی مخلوق کے لیے، بہتر سے بہتر معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ انسانی جبلت لمحہ موجود کے قریب تر کی مثال سے میل کھاتی ہے، لہٰذا ہم بھی زیادہ دور نہیں جائیں گے۔ یہ سارے سانول مشترکہ عالمی میراث ہیں۔ اور انسانیت کو بجا طور پر ان سب پر ناز ہے۔

سب سے پہلے سانول یہاں پر جناب نیلسن منڈیلا ہیں۔ نیلسن منڈیلا، بیسویں صدی کے انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی علامتوں میں سے ایک، ایسا شخص ہے جس کی اپنے لوگوں کی آزادیوں کے لیے لگن، دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے حرز جاں ہے۔ ٹرانسکی، جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، منڈیلا ایک قبائلی سردار کے بیٹے تھے، اور قانون کی ڈگری کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ 1944 میں، افریقن نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور حکمران نیشنل پارٹی کی نسل پرستی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے، فعال طور پر کام کیا۔

اپنے خلاف ایک مقدمے میں، منڈیلا نے کہا، "میں نے سفید فام تسلط کے خلاف جنگ لڑی ہے، اور میں نے سیاہ فام تسلط کے خلاف بھی جنگ لڑی ہے۔ میں نے ایک جمہوری اور آزاد معاشرے کے خواب کو جیا ہے، جس میں تمام افراد ہم آہنگی اور یکساں مواقع کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے میں حاصل کرنے کی امید کرتا ہوں۔ لیکن اگر ضرورت ہو تو یہ ایک آئیڈیل ہے جس کے لیے میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔" اور پھر چشم ِفلک نے وہ دن دیکھا، جب سات دہائیوں سے زیادہ کی صبر آزما جدوجہد کے بعد 1994 کی ایک روشن تر، اجلی اور خوبصورت صبح کو منڈیلا نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ مولانا روم نے کہا

"شاد باد اے عشقِ خوش سودائے ما"۔

ہندوستان کے یہ سانول جناب گاندھی تھے۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے، ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے، غیر متشدد سول نافرمانی کے اصولوں کو سب سے زیادہ آزمایا۔ وہ اکثر اپنے ان رویوں کی وجہ سے قید رہے، کبھی کبھی برسوں تک، لیکن انہوں نے اپنا مقصد 1947 میں اس وقت پورا کیا جب ہندوستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ مارٹن لوتھر کنگ، جونیئر سے لے کر نیلسن منڈیلا تک، سب نے اپنی جدوجہد میں گاندھی کو تحریک کا سورس قرار دیا ہے۔ آپ نے کہا تھا

"جب میں مایوس ہوتا ہوں، تو مجھے یاد ہوتا ہے کہ پوری تاریخ میں سچائی اور محبت کے راستے ہمیشہ جیتتے رہے ہیں۔ ہاں یہاں ظالم اور قاتل بھی رہے ہیں، اور ایک وقت کے لیے وہ ناقابل تسخیر نظر آتے ہیں، لیکن آخر میں وہ ہمیشہ ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں سوچو۔ ہمیشہ۔"

بنگلہ دیش کے یہ سانول جناب محمد یونس ہیں۔ جنہوں نے کمزور محروم اور محکوم طبقوں، کہ جن کی بینکوں اور مالیاتی اداروں تک رسائی ہی نہیں تھی، ان کے لئے آسان اور سادہ شرائط پر قرضے کی فراہمی کو یقینی بنایا اور بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت اپنے اس سانول کی مہربانیوں سے غربت کے دائروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ آپ نے1983میں گریمین بینک کی بنیاد رکھی، جسے دیکھتے دیکھتے صرف پچیس سال کے مختصر عرصے میں، غریب ممالک میں ایسے 100 ادارے کھڑے ہو گئے اور کروڑوں غریب، غربت کے دائرے سے نکلنے لگے۔ آپ نے فرمایا

"یہاں ہم اقتصادی ترقی کے بارے میں بات کر رہے تھے، مختلف پروگراموں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بارے میں، اور میں دیکھ سکتا تھا کہ لوگوں کو اس وقت اربوں ڈالر کی ضرورت نہیں تھی۔"

انسان دوستی اور اکرام آدمیت کے اگلے سانول، امریکہ کی سرزمین سے انقلابی سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ، جونیئر، بیسویں صدی کے غیر متشدد سماجی تبدیلی کے سب سے مشہور وکیلوں میں سے ایک تھے۔ کنگ جونیئر نے نسلی امتیاز کی طرف توجہ مبذول کرنے، اور افریقی نژاد امریکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے شہری حقوق کی قانون سازی کا مطالبہ کرنے کے لیے، غیر متشدد مظاہروں اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کو لکھا، بولا اور منظم کیا۔ کنگ جونیئر، شہری حقوق کی تحریک کا ایک استعارہ ہے۔ ان کی زندگی اور کام مساوات اور غیر امتیازی سلوک کی جستجو کی علامت ہے، جو امریکی اور انسانی خواب کا مرکز ہے۔ آپ نے کہا تھا۔

"انسان کا حتمی پیمانہ یہ نہیں ہے کہ وہ آرام اور سہولت کے لمحات میں کہاں کھڑا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ چیلنج اور تنازعہ کے وقت کہاں کھڑا ہے؟ "

پاکستان کی سرزمین سے یہ سانول، یہ ڈھولن، جناح صاحب تھے۔ جناح صاحب نے کمال بصیرت سے ایک بہترین سیاسی جدوجہد کے ذریعے، برصغیر پاک و ہند کے محکوم مسلمانوں کے لیے لئے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا۔ آپ کا، پاکستان کو ایک ترقی پسند جمہوری، ملک بنانے کا خواب تھا۔ قائد نے 13 دسمبر 1946 کو کنگز وے ہال لندن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ" جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے، جو بنی نوع انسان کی مکمل مساوات پر نظر رکھتے ہیں، اور بھائی چارے، مساوات اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔"

اب 14 جون 1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے قائد کا خطاب یاد کیجئے۔ آپ نے فرمایا، "مت بھولئے کہ آپ عوام کے ملازم ہیں۔ قومی پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں۔ یہ فیصلے سویلین قیادت کو کرنا ہیں اور آپ کا کام ان احکامات کی تعمیل ہے۔ ' "

پاکستانی قوم کو اگر روٹھے سانول کو منانا ہے، تو باباے قوم کے تصورِ پاکستان پر عمل پیرا ہو کر ہی ممکن ہے۔ قائد اعظم ایک جمہوری، پرامن، روادار، ترقی یافتہ اور متمدن پاکستان چاہتےتھے۔ قائد نے پاکستان میں بنیادی، کنٹرولڈ، ہائبرڈ، مذہبی اور ٹیکنوکریٹ جمہوریت کے نام پرعوام کو تجرباتی چوہے بنانے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan