Qaumon Ke Zawal Ka Markazi Nuqta
قوموں کے زوا ل کا مرکزی نکتہ
یہ معروضات نہیں بلکہ ملت مرحوم کے زوال کا مرکزی اور اہم ترین نکتہ ہے۔ موضوع اتنا حساس، مرض اتنا پرانا اور جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اگر خون دل سے بھی لکھا جائے، پھر بھی اس کی کا مل قبولیت، بوجوہ مسدود ہے۔ بہرحال امید ضرور ہے کہ پستی اور زوال کی آخری حد سے اصلاح احوال اور بہتری کا سفر شرو ع ہو گا۔ مسئلے کے کامل ادراک اور مکمل پذیرائی کے راستے میں اندھی تقلید، وسائل پر تسلط اور مبنی بر دروغ معلومات کی مضبوط دیوار یں سب سے بڑ ی رکاوٹ ہیں۔ بحر حا ل ان معروضات کو پہلے سے موجود کسی بھی تضاد اور تعصّب کے زیر اثر دیکھنے سے موضوع کا مکمل فہم، اور مکمل پیغام، تشنہ تکمیل رہے گا۔
مفلوک الحال کا مذہب روٹی اور مفلس کی اخلاقیات کا قبلہ چند سکّے ہوتے ہیں۔ کمزور کی تکریم کے ہر راستے میں موجود اس کی ضرروریا ت اور تقاضوں کے بھا ری پتھر اس کی کامیابی کے ہر امکان کو مسدود کیے ہوتے ہیں۔ اور اسی نظام میں موجود غاصب طبقہ جو کہ محدود اقلیت میں ہوتا ہے، وہ اس نظام کا بلا واسطہ مسند نشین اور وارث ہوتا ہے۔ حوص اقتدار کا مذہب، صرف اور صرف حصول اقتدار اور استحصال کی اخلاقیات غصب اور حق تلفی ہوتی ہیں۔
اللہ کے آخری نبی ﷺنے اسلام کا جو تصور حیات اس دنیا کو دیا، اس میں کوئی بھول اور خامی نہیں تھی۔ اس میں کسی بھی قسم کے استحصال کا کوئی شا ئبہ تک نہیں تھا۔ لیکن آج سب سے زیادہ استحصال انہی اسلامی ریاستوں میں ہو رہا ہے۔ ان کی اکثریت کمزور، محکوم، اور محروم طبقات پر مشتمل ہے اور اقلیت بندوق کے زور پر وسائل پر قابض ہے۔ آج بیشتر اسلامی ریاستوں میں مطلق آمریت، بادشاہت، مطلق بادشاہت، ہائبرڈ یا نامکمل آمریت کے نظام قائم ہیں جو کہ سراسر اسلام کے تصور حکومت کے منا فی اور متصا دم نظام ہیں۔
اسلام، نظام حکومت کے لئے کامل جمہوریت کا تصور پیش کرتا ہے۔ صرف اور صرف کامل جمہوریت۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے " امر ھم شوریٰ بینھم"۔ ﴿الشوریٰ۲ ۴: ۸۳﴾ " اور اُن کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔"
اسلام کے قانون سیاست میں نظم حکومت کی اساس یہی آیت ہے۔ بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط، اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر، غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے۔ ریاست کا کوئی شعبہ اِس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اِس کے اثرات سے خالی نہ ہو گا۔ سورۂ شوریٰ میں تین لفظوں کا یہ جملہ اپنے اندر ایک جہان معنی سمیٹے ہوئے ہے۔
ہادی برحقﷺ کے دنیا سے وصال کے تھوڑے ہی عرصے بعد، بدقسمتی سے ملوکیت اور آمریت نے بزور شمشیر اسلام کے دیے ہوئے نظام حکومت کے متبادل نظام کی حیثیت بنا لی۔ شروع کی خونریز جنگوں میں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کا نا حق خون بہا یا گیا۔ دور یزید میں حصول اقتدار اور شخصی آمریت کے لیے نواسہ رسولﷺ، شہزادہ کونین، حسنین کریمین، کہ جن کے لیے رسول اللہﷺمنے اپنے سجدے طویل کیے، جس ہستی نے دوش پیغمبر پر سواری کی، جن کی تربیت خود رسول خدا، مخدومہ کائنات، شہزادی کونین اور جناب شیر خدا علی المرتضیٰ جیسی افضل ترین ہستیوں نے کی۔
جن کی فضیلت اور شان میں رسول اللہﷺ کی متعدد احادیث مبا رکہ ہیں۔ ان کو ان کے خاندان، عورتوں اور بچوں سمیت، دشت کربل میں بھوکا اور پیاسا ذبح کر دیا گیا۔ بیت اللہ یعنی مکّہ مکرّمہ پر لشکر کشی کی گئی اور بیت اللہ کی حدود کے اندر مسلمانوں کا خون ناحق، بے دریغ انداز سے بہایا گیا۔ بیت اللہ کی عمارت پر پتھر برسایے گئے۔ غلاف کعبہ کو پھاڑا اور جلا دیا گیا۔ مسجد نبوی کے اندر، منبر رسول اور روضہ رسول ﷺکے اطراف میں کئی دن تک گھوڑے باندھے گئے جو مسجد نبوی اور روضۂ رسولﷺمکی حرمت کو پامال کرتے رہے۔
یزیدی فوج کے گھوڑے مسجد نبوی کے اندر لید اور پیشاب کرتے رہے اور کم و بیش تین روز تک مسجد نبوی میں ا ذ ان اور نماز ادا نہ کی جا سکی۔ کم و بیش سات سو سے ایک ہزار صحابہ کو مدینہ النبی میں شہید کر دیا گیا اور صحابیات کی عصمت دری کی گئی۔ یزید نے اپنی فوج کے لیے مدینہ النبی کی تمام عورتوں کی عصمت دری اور استحصال، تین دن کے لیے جائز قرار د یا۔ ذاتی اور ناجائز اقتدار کے لیے اس بربریت اور درندگی کے بعد حاصل شدہ یہ شخصی بادشاہت بعد میں خاندانی بادشاہتوں میں تبدیل ہو گئی اور آمریت کے تازیانوں کے سامنے خدا کے نظام کو سرنگوں کر دیا گیا۔
غصب شدہ اقتدار کی طاقت، جبر، استحصال اور بربریت کے آگے حق پرست مذہبی طبقے نے مزاحمت کی تو صفحہ ہستی سے مٹا دیے گے۔ حق اور سچ کو مکمل دبا دیا گیا اور باطل، ناجائز اور خود ساختہ نظام حکومت کو اسلام کی تعبیر میں بدل دیا گیا۔ یہ انسانی تاریخ کی کتنی بڑ ی خیانت اور کتنی بڑی واردات ہے۔ خدا کے دین میں تحریف اور اس کی من پسند تعبیر کو بندوق کے زور پر مذہب کی تعبیر قرار دینا ہی آمریت کی تشریح ہے۔ اور اس میں صرف جبر، طاقت، دھونس دھاندھلی نہیں چلی، ریاست کے وسائل اور خزانوں کے منہ بھی کھول دے گئے۔
مذہب کی از سر نو تشریحات کروائی گئیں اور ناجائز کو جائز کرنے کے لئے سینکڑوں سالوں کی محنت لگی۔ درا صل آ مر، خدا کے مقابل خدا اور آمریت خدا کے نظام کے مقابل نظام ہوتا ہے۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس کو اگر سمجھ لیا جائے تو بیڑا پار لگ سکتا ہے ورنہ ذلّت اور پا تال میں پڑے تو صدیاں بیت چکی ہیں۔ جن قوموں نے اس راز کو پا لیا ہے وہ آج سرخرو اور کامران ہیں۔
تاریخ انسانی میں اس واردات کے بعد تا قیام قیامت ہر آمر اور آمریت کا استعارہ یزید ہے اور رہے گا اور آمریت کا اصل مرکز اور قبلہ، فلسفہ یزیدیت ہے اور رہے گا۔ قا بل افسوس امر یہ ہے کہ نوع انسانی، یزید کی مذمّت پر متفق ہے، اس کے دیے ہوے نظام اور فلسفے کے باطل ہونے پر یکسو ہے پر اپنے اپنے دور کے یزید کی پہچان اور مذمّت میں ملّت مرحوم ہمیشہ لیت و لعل اور گو مگو کی کیفیت کا شکار رہی ہے۔ اور یہی تضاد ملّت مرحوم کا بالعموم اور مملکت خداداد کے زوال کا با لخصوص مرکزی نکتہ ہے۔
آج کے دور کے آمر جو خدا کے سامنے خدا اور خدا کے نظام کے سامنے اپنا نظام نافذ کئے ہوے ہیں۔ اور اس انتظام کی حفاظت کے لیے بندوق کی طاقت اور ریاست کے وسائل کے زور پر ابن الوقت موقع پرست سیاست دانوں، نظام عدل میں موجود مصلحت کوش قاضیوں، ابلاغ میں موجود زر خرید صحافتی نمائندوں اور نام نہاد مذہبی رہنما وں کو اپنے ساتھ شریک اقتدار کر رکھا ہے۔ اور نظام کے اصل وارث آج تک اپنے حق کے حصول کے لیے میدان میں ہیں۔
سیاہ، تاریک اور طویل تر رات کو مملکت خداداد میں پون صدی ہو چکی ہے۔ یہ نظام اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔ استحصا ل کے نظام سے خدا کے نظام کی طرف منتقلی کے دو راستے ہیں۔ پہلا اور سب سے بہترین راستہ، یہ ہے کہ بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ سیاسی قیادت کی پر امن جدو جہد کے سامنے استحصالی طبقہ ایک نیا عمرانی معاہدہ قبول کر لے اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام قبول کر لے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور عوامی جدوجہد کے آگے مزاحمت کی جائے، نوشتہ دیوار کو نظر انداز کیا جائے، جھوٹ اور دروغ گوئی جاری رکھی جائے، آج کے گوئبلز کو مزید دروغ گوئی پر لگا دیا جائے اور شخصی آمریت کو صدارتی نظام کا نیا روپ دینے کی باتیں کی جائیں اور نتیجتاً عوام میں پھیلی بے چینی اور غصّے کو مزید ایندھن فراہم کیا جائے۔ اس روش کا انجام وہی ہو گا جو اٹلی کے مسولینی، جرمنی کے ایڈولف ہٹلر، ایران کے رضا شاہ کا ہوا تھا۔