Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sajjad Aheer
  4. Ik Gohar e Murad Jis Ki Qadar Na Ki Gayi (1)

Ik Gohar e Murad Jis Ki Qadar Na Ki Gayi (1)

اک گوہرِ مراد جس کی قدر نہ کی گئی (1)

یہ ایک مضطرب طالب علم کے بے قرار دل کا سنجیدہ اور پرمغز فکری مکالمہ ہے جس کا بنیادی مقصد ایک فکری مغالطے کی تصحیح ہے۔ لہٰذا اگر آپ تفریح طبع کے لئے کسی ہلکی پھلکی تحریر کی تلاش میں ہیں یا آپ عالم اسلام کے جید اور سکہ بند رہنما جناب عمران خان کے نقاد ہیں تو آپ اپنی راہ لیں یہ کوئی دوسرا مقام ہے۔

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

بندہ پرور اضطراب اور پریشانی کا یہ عالم ہے کہ نہ بھوک ہے نہ پیاس ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب علم سے عالم اسلام کے رہبر و رہنما، جناب عمران خان صاحب کی طرز سیاست اور سیاسی فکر سے اختلاف اور سخت ترین تنقید کا گناہ بےلذت سرزد ہوتا رہا ہے اور اس کی تاریخ بھی لگ بھگ اتنی ہی طویل ہے جتنا کہ خان کی سیاسی جدوجہد۔ اضطراب کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب کی شخصیت کے یہ زاویے جو مجھ پر اب عیاں ہوئے اور جس درجہ عیاں ہوئے یہ پہلے کیوں نہ ہوئے؟

بہرحال بڑی دیر سے یہ سنجیدہ معاملہ طالب علم کے لیے ایک پیچیدہ فکری بحران بن کے پھن پھیلائے ہوئے ناگ کی طرح سکون غارت کیے ہوئے تھا۔ لیکن اب نوید مسرت یہ ہے کہ طالب علم نے اپنے دین اور دنیا کی بقا کے لئے اس گناہ سے تائب ہونے کا اور بھرپور رجوع کا فیصلہ کر لیا ہے اور آگے آنے والے وقتوں میں اس کے دوبارہ ارتکاب نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔ بقول فیض صاحب

میرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو

وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کایا پلٹ کیسے ممکن ہوئی اس کی وجوہات کیا ہیں؟ دیکھئے ویسے تو اس کی وجوہات بیشمار ہیں لیکن کچھ چیدہ چیدہ نکات میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔ سب سے پہلی بات تو عمران خان صاحب کے زبان و بیان اور کردار و عمل کی سیمابی خاصیت ہے۔ مجال ہے جو ایک بیان پر یا ایک نظریے پر، یا ایک ہی ٹیم کے ساتھ زیادہ دیر ٹھہر سکیں یا اس کو اپنی کمزوری بننے دیں۔ یہ قریب قریب ناممکن ہے۔ ویسے تو اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جہاں انہوں نے اقبال کے اس شعر کی عملی شکل بن کے دکھایا ہے۔

جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا

لیکن یہاں پر صرف چند روشن ترین مثالیں ملاحضہ کریں، امریکی سازش بیانیہ اور اس سے رجوع، پینتیس پنکچر بیانیہ اور اس سے رجوع، ریاست مدینہ بیانیہ اور پھر عملاً رجوع، اس کے علاوہ ہمدم دیرینہ جہانگیر ترین صاحب کی دوستی اور پھر رجوع، جناب قبلہ بڑے حاجی صاحب کی بیعت اور پھر شرعی رجوع اور دو عدد ازواج محترمات کے ساتھ نکاح اور پھر رجوع اس کے علاوہ ڈیڑھ درجن کے قریب دوشیزاؤں سے وعد و وعید اور پھر رجوع جو منصب زوجیت پر فائز ہوتے ہوتے رہ گئیں۔

بس یہی خاصیت ان کو دوسرے عالمی رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے اور اپنے نکتہ نظر کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہتر یا تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے پیش نظر خان صاحب نے 2010 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے، بادل ناخواستہ ہاتھ ملایا تاکہ قوم کی خدمت کے لیے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ سکیں اور اسی اصول کے پیشِ نظر آپ نے دوسری پارٹیوں کے الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

اب کچھ حاسدین اس کو آئین سے غداری اور آرٹیکل 6 کی مجموعی خلاف ورزی کے ارتکاب کے زمرے میں لے جاتے ہیں، کچھ لوگ اسے شخصی حکومت کی خواہش اور جمہوریت، آئین اور ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہیں۔ کچھ تنگ نظر اسے عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکے اور منافقت کا نام دیتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن طالب علم کو یہ بات اب سمجھ آ گئی ہے کہ اگر لیڈر عمران خان ہو تو ان سب جرائم کے ارتکاب کے پیچھے، کسی بڑے مقصد کا حصول کارفرما ہوگا اور یہی مرکزی نکتہ ہے۔

دوسری سب سے اہم بات جس نے طالب علم کے رجوع میں سب سے اہم کردار ادا کیا وہ عمران خان صاحب کا سرٹیفائیڈ صادق اور امین ہونا ہے۔ یہ پاکستان کی بلکہ شاید پوری دنیا کی تاریخ کے واحد لیڈر ہیں کہ جن کو پاکستان کی اعلٰی ترین عدالت نے صادق اور امین کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ دیا تھا جب ثاقب نثار صاحب جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ یہ اعزاز اور کسی بھی رہنما کے حصّے میں نہیں آیا۔ اس سرٹیفکیٹ کے مطابق آپ صادق بھی ہیں اور امین بھی۔

صادق کے لفظی معنی ہیں سچا ایسا شخص جس کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے، جس کا قول اور فعل یکساں ہے اور جس کی جلوت اور خلوت دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جس کو نفاق چھو کر بھی نہیں گزرا اور امین کا مطلب ہے ایمان دار، جس پر اعتماد اور بھروسا کیا جا سکے، امانت دار، معتبر۔ وہ عہدہ دار جو عوامی نمائندگی اور عہدے کو عوام اور ریاست کی امانت سمجھ کر ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرے۔

اس ضمن میں بھی جو ان کے مخالفین ہیں وہ کئی قسم کے الزامات لگاتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کے قول و فعل میں تضاد ہو، جس پر فارن فنڈنگ ثابت ہو چکی ہو اور اس کیس میں نااہل ہو چکا ہو، چار اور کیسز میں بھی نااہلی کا سامنا ہو، شوکت خانم کے عطیات میں خورد برد، توشہ خانہ سکینڈل، ریڈزون افراتفری، ٹیریان کیس منہ چڑا رہے ہوں۔ جس کو یورپ جیسے آزاد معاشرے نے بھی "پلے بوائے" کا خطاب دیا ہو اور بالکل حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے مبینہ آڈیو لیکس سکینڈل نے طوفان اٹھا رکھا ہو اس کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دینا ایسا ہی ہے جیسے کوے کو سفید رنگت کا سرٹیفیکیٹ جاری ہو جائے۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal