Hoshruba Mehangai, Donald Bhai Aur Siasat Ka Roohani Touch
ہوشربا مہنگائی، ڈونلڈ بھائی اور سیاست کا روحانی ٹچ
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پٹرول کی فی لیٹر قیمت لگ بھگ 250 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 277 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے قریب ڈیڑھ ماہ کے اندر پٹرول کی قیمت میں 100 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 130 روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح بجلی کی قیمت میں بھی لگ بھگ دس روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا ہے اور مزید اضافہ زیر غور ہے۔
اب اس اضافے سے منسلک اشیاء کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مزید مہنگائی کا اندیشہ ہے۔ چار سال بعد پہلی بار بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے ریلیف اقدامات کا اعلان ہوا تھا جو کہ آئی ایم ایف کے پیکج کی نظر ہو گیا اور ٹیکس میں دی گئی چھوٹ کو ایک ہفتے بعد ہی واپس لے لیا گیا۔ اب موجودہ حکومت کے مطابق یہ ساری بد انتظامی اور مہنگائی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان پروجیکٹ کی مہربانی ہے اور عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے چار سال میں اتنی مہنگائی نہیں کی جتنی موجودہ حکومت نے کی ہے۔
یہ دونوں باتیں سیاسی جماعتوں کے سیاسی بیانیے ہیں اور درحقیقت عمران خان کے تباہی اور بربادی کے دور کے اختتام پر قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے بھی غریب کش پالیسی اپناتے ہوئے سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے کی کمر پر لاد دیا ہے۔ اور چاہے اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ عمران خان ہو، جمہوریت کی چیمپئن "پی ڈی ایم" ہو یا براہ راست آمریت ہو، پون صدی سے اشرافیہ کا کام غریب اور متوسط طبقے کی پیٹھ پر سواری ہے اور غریب عوام اور متوسط طبقے کا کام ہے بار اٹھانا اور اشرافیہ کی عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے ٹیکسز اور محصولات اکٹھے کرنا۔
ارباب اقتدار سے بصد احترام عرض ہے کہ آپ پہلے نہیں ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے ہیں اور یقیناً آخری بھی نہیں ہیں۔ یہ اقتدار عارضی اور امانت ہے۔ خدارا غریب اور متوسط طبقے کے لیے خیر کے فیصلے کریں ان کے لیے ریلیف کا سوچیں۔ اگر آپ غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینے میں ناکام رہے اور مشکل فیصلوں کے نام پر غریب پر بجلیاں گرانے میں مصروف رہے تو عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر آپ میں اور غاصبوں میں کیا فرق ہے؟
یہ موضوع ایک عام پاکستانی کے نقطہ نظر سے سب سے اہم اور حساس ترین ہے۔ آج طبیعت تو صرف اسی ایک موضوع پر مائل تھی لیکن اچانک دو اہم خبریں جو آج ہی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہیں، ان سے سرفِ نظر ممکن نہیں اس لئے ان پر بھی درویش کی خامہ فرسائی میرے صاحب علم اور صاحب الرائے قارئین کی نذر ہے۔
پہلی خبر جو آج سارے میڈیا پر چھائی رہی وہ یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف امریکہ کے اہم عہدے دار نے مبینہ طور پر جنابِ "ڈونلڈ لو" بھائی سے رابطہ کیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ چھوڑیں سر پی ٹی آئی اور عمران خان سے غلطی ہو گئی ہے گھر کے قضیے میں آپ کو اور امریکہ کو گھسیٹ لیا، آپ دل بڑا کریں اور درگزر سے کام لیں ہم آپ کے اور امریکہ کے ساتھ مستقبل کی لمبی سڑک پر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔
اب "ریجیم چینج" کے بیانیے پر اور امپورٹڈ حکومت کے بیانیے پر جو جذباتی دوست کافی آگے نکل گئے تھے ان سے گزارش ہے کہ وہ واپس آ جائیں اور جن دوستوں سے بحث مباحثے میں ترک تعلق کر لیا تھا وہ بھی اپنی پارٹی کی تقلید میں "رجوع" کر لیں۔ اس خبر کی تردید تا دمِ تحریر تو نہیں آئی۔ یادش بخیر یہ ڈونلڈ بھائی وہی ہیں جنہوں نے بقول عمران خان صاحب کے پاکستانی سفیر کو تڑیاں لگائی تھیں اور پاکستان میں "ان" کی حکومت گرا کر ایک "امپورٹڈ" حکومت بنائی تھی۔
دوسری اہم خبر محترمہ بشریٰ وٹو صاحبہ کی مبینہ آڈیو ٹیپ کا "لیک" ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں محترمہ بشریٰ وٹو صاحبہ، پی ٹی آئی میڈیا سیل کے انچارج کو کچھ سیاسی ہدایات دے رہی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ، نمبر ایک "پی ٹی آئی کا میڈیا سیل پروپیگنڈا میں کمزور پڑ رہا ہے اسے ایکٹو ہو جانا چاہیے"، نمبر دو "سیاسی مخالفین کے خلاف غداری کے ہیش ٹیگ کو ٹاپ ٹرینڈز میں ہونا چاہیے" نمبر تین "وہ جو "بچی" ہوتی ہے بشریٰ بی بی کے ساتھ "فرح" اس کا اور بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات کا بھرپور دفاع کرنا ہے اور الزامات لگانے والوں کو "غداری" ہیش ٹیگ کے ساتھ جوڑ دینا ہے۔ "
اگر یہ مبینہ آڈیو فرانزک ہو کر درست ثابت ہوتی ہے تو اس میں دو باتیں بڑی اہم ہیں، پہلی بات بشریٰ وٹو صاحبہ کا سیاسی ہونا، کیونکہ اس سے پہلے پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ بشریٰ وٹو ایک "مکمل غیر سیاسی گھریلو خاتون ہیں "، ویسے یہ جملہ پڑھتے ہوئے اور سنتے ہوئے اس ٹیپ سے پہلے بھی "ہا سا" نکل جاتا ہو گا؟ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اب "اسلامی ٹچ" کے بعد "روحانی ٹچ" بھی متعارف کروا دیا ہے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی "سڑنا" نہیں چاہیے بلکہ سیاست میں جدت کے نت نئے طریقے متعارف کروانے کا کریڈٹ دینا چاہیے۔