Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sajjad Aheer
  4. Aur Kitna Tawan Abhi Baqi Hai?

Aur Kitna Tawan Abhi Baqi Hai?

اور کتنا تاوان باقی ہے؟

پروجیکٹ عمران ریسرچ کے طالب علموں کے لیے ایک نہایت پر کشش موضوع ہے جس کی بنیادی وجہ اس میں ان گنت سوالات ہیں، جن کے جوابات کئی سالوں تک تلاش کیے جاتے رہیں گے۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے، جس میں آنے والے وقتوں کے لیے متعدد اسباق ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس نوعیت کے پروجیکٹس مقتدرہ نے پہلے بھی کیے کہ جن کا تاوان یہ درماندہ قوم آج تک بھر رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس آخری پروجیکٹ نے پہلے سے کمزور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اور لگ بھگ نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک گئی ہے۔

گو کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے پروجیکٹ عمران کی آخری رسومات کا آغاز تو ہوگیا ہے، جس کے لیے جہاں اہل وطن کو اپنے مزاحمتی رویے اور سیاسی بصیرت کے لیے سراہا جانا چاہئے، اسی سانس میں پروجیکٹ لانے والوں سے فریاد کہ اس کو مکمل طور پہ بے اثر کیے بغیر ساری قوم کو اس کے تابکاری اثرات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر اپنی راہ لی اور چل دیئے۔ اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ کیا آمروں کا تر نوالہ یہ بدنصیب قوم، مستقبل میں آمریت کے تازیانوں سے مستقل نجات پا سکے گی یا نہیں؟ یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے۔

اس مضمون میں"پروجیکٹ عمران" اور پون صدی سے جاری کھیل کی نذر ہونے والے مجموعی قومی وسائل اور اجتماعی نقصان کے اعداد وشمار کے علاوہ مملکت خداد اور قومی وسائل و ترقی پر اس کے مجموعی اثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے تو انسانی تاریخ میں اقتدار اور وسائل پر قابض طبقات نے بڑے بڑے انسان دشمن "پروجیکٹس" کیے ہیں خاص طور پر تاریخ اسلام اس طرح کے آمرانہ اور انسان دشمن منصوبوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر پروجیکٹ عمران کیونکہ اکیسویں صدی میں کیا گیا کہ جس دور میں جمہوریت کے حق میں اور آمریت کے خلاف اجتماعی انسانی شعور تاریخی اعتبار سے سب سے بہتر تھا لہٰذا یہ پروجیکٹ، ماضی کے باقی تمام پروجیکٹس سے زیادہ دور رس نتائج کا حامل ہے۔

پاکستانی سیاست میں پروجیکٹ عمران 2010 سے 2022 شمار کیا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اس میں مقتدرہ نے بے پناہ ملکی وسائل تو 2010 سے ہی جھونکے لیکن تاریخ سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کی جڑیں 2010 سے پرے جنرل مشرف، جنرل حمید گل سے ہوتی ہوئی جنرل ضیاء الحق مرحوم تک گہری ہیں۔

بہرحال 2010 میں عمران خان اور تحریک انصاف کو سرد خانے سے برآمد کر کے پروجیکٹ عمران کی بنیاد رکھی گئی۔ ریاست، سیاست اور اہل سیاست کو کمزور اور بے توقیر کرنے والے میمو گیٹ، 2014 دھرنا، پانامہ پیپرز، ڈان لیکس اور جنرل الیکشن 2018 میں آر ٹی ایس بیٹھنا اسی منصوبے کے اجزاء تھے۔ جنرل الیکشن 2013 میں بھرپور کوشش کے باوجود حسب منشا نتائج نہ مل سکے چنانچہ 2018 میں اس منصوبے کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا۔

2010 سے 2022 تک قوم کے بارہ برس اس تجربے کی نذر ہوئے۔ اور خدا جانے 2022 سے آگے اور کتنے سال اس کی تباہی اور بربادی کی نذر ہوں گے۔ آئیے جائزہ لیں کہ باقی دنیا نے انسانی ترقی، امکانات اور وسائل کی کون سی منزلیں سر کیں اور ہم کن صحرائوں میں بھٹکتے رہے۔

اعداد وشمار کا تقابل صرف ہمسایہ ممالک سے کیا گیا ہے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ پاکستان میں شرح تعلیم 58 فی صد ہے جبکہ ایران میں 85 فی صد انڈیا میں 75 فیصد چائنہ میں 80 فیصد اور بنگلہ دیش میں 74 فیصد ہے۔

انسانی ترقی میں پاکستانی کا نمبر عالمی درجہ بندی میں 161واں ہے اور پاکستان انسانی ترقی انڈیکس میں سب سے کم انسانی ترقی والے ممالک کی کیٹیگری میں شامل ہے اور اس کا سکور 54 فیصد ہے۔ جبکہ ایران کا سکور 78 فیصد اور عالمی درجہ بندی میں ایران 75 نمبر پر ہے چائنا کا سکور 77 فیصد اور عالمی درجہ بندی میں 82 نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کا سکور 66 فیصد اور عالمی درجہ بندی میں 128 نمبر پر ہے جبکہ ہندوستان کا سکور63 فیصد اور عالمی درجہ بندی میں 130 نمبر پر ہے۔

اس وقت بھارت کا جی ڈی پی 3.29 کھرب ڈالر، بنگلا دیش کا جی ڈی پی 416 ارب ڈالر، چین کا جی ڈی پی 17.9 کھرب ڈالر اور پاکستان کا جی ڈی پی صرف 292 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت بھارت کی فی کس آمدنی 1850 ڈالر، بنگلا دیش کی 2227 ڈالر، چین کی فی کس آمدنی 12556 ڈالر ایران کی 12560 ڈالر ور پاکستان کی فی کس آمدن 1190 ڈالر ہے۔

اس وقت چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3222 ارب ڈالر، بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 634 ارب ڈالر، بنگلا دیش 40.1 ارب ڈالر ایران کے 86 ارب ڈالر اور پاکستان کے لگ بھگ 10 ارب ڈالر پر ہیں۔ چین کی برآمدات اس وقت 3.36 کھرب ڈالر بھارت کی برآمدات 400 ارب ڈالر، بنگلادیش برآمدات 50 ارب ڈالر، ایران کی 80 ارب ڈالر اور پاکستان کی 28 ارب ڈالر ہیں۔

بھارت میں غربت کی شرح 6 فیصد، چین میں غربت کی شرح 0.6 فیصد، بنگلا دیش میں غربت کی شرح 14 فیصد ایران میں شرح غربت 16 فیصد جبکہ پاکستان میں غربت 39.2 فیصد ہے۔

نظام انصاف میں پاکستان عالمی درجہ بندی میں 140 میں سے 129 نمبر پر، جمہوریت اور جمہوری نظام میں سب سے نچلی کیٹیگری میں 107 نمبر پر بد عنوانی میں 165 ممالک میں 161 نمبر پر اور پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ عمران خان صرف ساڑھے تین برس وزیر اعظم رہے لیکن پروجیکٹ عمران کے لیے بحران اور سازش کے تانے بانے سے قوم کے سارے وسائل اور 12 برس برباد کیے گئے۔ خدا جانے اور کتنا تاوان باقی ہے؟

Check Also

313 Musalman

By Hussnain Nisar