Aamriyat Se Bari Badunwani Kya Ho Sakti Hai?
آمریت سے بڑی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے؟
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے فرمایا تھا
اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
دور حاضر میں پاکستان سمیت مسلم دنیا کا ایک سب سے بڑا فکری مغالطہ بلکہ فکری المیہ یہ ہے کہ "آمریت کو بطورِ نظام حکومت مذہب اسلام کی حمایت حاصل ہے یا یوں کہیے کہ آمریت اسلام کے لیے قابلِ قبول نظام ہے بلکہ کسی حد تک حمایت یافتہ نظام حکومت ہے"۔ اس نظریے کی حمایت میں جتنا مواد ہے وہ آمروں کی خیانت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اسلام کو دریا برد کرنے کے مترادف نظریہ کب اور کیسے اسلام میں شامل ہوا آئندہ سطور کو مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر پڑھیں گے تو ضرور سمجھ آئے گا۔ مسلمان آبادیوں میں فکری خیانت اور فکری قحط کی سب سے بڑی وجہ ہی آمر اور آمریت کے تازیانے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس فکری مغالطے کی یا اس باطل نظریے کی آج اکیسویں صدی میں بھی عام مسلم عوام کے ساتھ ساتھ اہل علم و دانش میں بھی پذیرائی موجود ہے۔ اس کی مجموعی حمایت کی بہت ساری وجوہات ہیں سب سے بنیادی وجہ غلبہ اسلام کے دنوں میں حوس اقتدار اور شخصی اور خاندانی بادشاہت کے نظریہ کے حامل صاحب ثروت اور بااثر افراد کا اپنی درپردہ اقتدار کی خواہشات اور ان کی تکمیل کی خاطر کاروان اسلام میں شامل ہونا ہے۔
اور پھر جب خلافت راشدہ کو بزور شمشیر ختم کیا گیا اور ملوکیت در آئی تو پھر اسی فکر اور سوچ کے اتباع میں اسلام کے نظام حکومت میں"امر" کے انتخاب کو "شوری" اور باہمی مشاورت کے علاوہ بزور شمشیر اور بزور طاقت قبضہ کرنے کے عمل کو بھی قابل اتباع اور جائز عمل کہلوایا اور شرعی جواز عطا کروایا گیا۔ درحقیقت یہ جواز دین میں بعد ازاں شامل کیا گیا، پہلے اقتدار پر قبضہ کیا گیا۔ چونکہ اتنی بڑی کاروائی کر لی گئی تھی جو کہ شرعاً قابلِ گرفت اور خدا کی منشاء سے عملاً متصادم تھی اور اس کی شریعت اور اسلامی قانون میں سخت ترین سزائیں موجود تھیں اس لیے اب خدا کے قانون کو بدلنا ضروری ہوگیا تھا وگرنہ تو اقتدار بھی جاتا اور ساتھ جان و مال بھی۔
دوسرے تاریخ میں بھی اپنے آپ کو ذلت و رسوائی سے بچانا مقصود تھا۔ اس دین کو یکسر تبدیل کرنے کے مترادف کاروائی نے مذہب اسلام کو زندہ درگور کر دیا۔ آمریت کو بطور نظام حکومت اور آمر کو بحیثیت حاکم یا خلیفہ دین میں شامل بنوامیہ نے کروایا اور ان باطل نظریات کو بعد میں آنے والے عباسیوں اور عثمانیوں کی خاندانی بادشاہتوں نے مزید مستحکم کیا کہ جس کو آج بھی آل سعود کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ تمام آمروں کی بقا اور خودساختہ جواز کا اکیلا ضامن نظریہ ہے۔
اس ضمن میں جو سب سے بڑی کاروائی کی گئی ہے وہ شریعت محمدی اور خدا کے قانون میں بدنیتی پر مبنی تحریفات کی ہے۔ اولاً بزور شمشیر اقتدار پر قبضے کو "بھی" قابلِ اتباع کہلوایا گیا لیکن چونکہ یہ ایک دور رس اور قابلِ گرفت عمل ہو سکتا تھا اس لیے اس ایک عمل کو قانونی اور مذہبی خلعت جواز عطا کرنے کے لیے مذہبی تعلیمات میں فکری تحریف کا بار گراں اس وقت کے سرکاری علما کے ذمّہ لگایا گیا۔
اور خلافت راشدہ کا بزور شمشیر خاتمہ، بے گناہ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا کر اقتدار پر قبضہ، اور اس سے متصل خدا کے دین میں اپنی منشاء اور مرضی کی تحریفات کروانا، یہ آل امیہ کی آمریت کے تین سب سے بڑے کارہائے نمایاں ہیں جنکو فقط خطائے اجتہادی کے شرعی غلاف میں لپیٹ کر تاریخ کے بے رحم احتساب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بنوامیہ کی ایک طویل شخصی اور خاندانی آمریت کی ابتدا تھی جو کم وبیش ایک صدی پر محیط ہے۔
لیکن بنوامیہ کے آمروں نے صرف تلوار کے زور پر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا انہوں نے اپنے سو سالہ اقتدار میں دین میں منظم اور سرکاری سرپرستی میں تحریفات کروا کر شخصی اور خاندانی آمریت کو نہ صرف شرعی جواز عطا کیا بلکہ آمریت کو اسلام کا پسندیدہ نظام حکومت بنا دیا۔ یہ اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی فکری خیانت ہے جو بنوامیہ نے کی اور اس کو بعد میں آنے والے خاندانوں بنو عباس اور عثمانیوں نے نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کی مضبوطی کے لیے حسب ضرورت اپنا حصہ بھی شامل کیا۔
آل امیہ کی خاندانی آمریت کا خون آشام انجام بنو عباس کی شمشیر بے نیام کے ہاتھوں ہوا۔ کیونکہ اب اقتدار خدا کی مشیت کے تحت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر طے ہو سکتا تھا۔ عباسی اقتدار بھی ایک طویل خاندانی آمریت کی داستان ہے جو کم و بیش چھ سو چوبیس سال پر محیط ہے اور اس خاندان کی آمریت کا اختتام سلطنت عثمانیہ کی خاندانی آمریت کے آغاز پر ہوتا ہے جو کہ کم و بیش چھ سو سال قائم رہی۔
اب اہل علم کے لیے دعوت فکر ہے کہ ایک آمر اور اس کے خاندان کی اپنے ذاتی اقتدار کے لیے شروع کی گئی لڑائی اور بعد میں اسلامی ریاست پر قبضے کی داستان، مختلف آمریتوں کی شکل میں کم و بیش سوا تیرہ سو سال تک اجتماعی آمریت کی شکل اختیار کر گئی جس کا جزوی اختتام پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست اور سلطنت عثمانیہ کے اختتام پر ہوا لیکن ستم بالائے ستم یہ ہؤا کہ اسلامی ریاستوں نے عثمانیوں کی خاندانی آمریت سے چھٹکارا تو پایا مگر آمریت کا عفریت پہلے سے بھی بدتر شکل میں چھوٹے چھوٹے وار لارڈز کی آمریتوں کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔
جن میں سب سے اہم حجاز مقدس پر خاندان سعود کے قبضے کی شکل میں نمودار ہوا جو آج تک قائم ہے اور باقی اسلامی دنیا میں جنگ عظیم اول کے فاتح یورپی ممالک نے قبضہ کرکے ان کو اپنی کالونیاں بنا لیا۔ آمروں اور آمریت کے پروردہ نظام نے مذہب کو اسوقت سے آج تک اپنے اقتدار کے تحفظ اور حمایت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اقبال نے کہا
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ
یہ نغمہ فصل گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الااللہ