Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Science Aur Mazhab

Science Aur Mazhab

سائنس اور مذہب

دنیا بھر میں آئے روز نئی نئی ایجادات اور نئی نئی سائنسی دریافتیں ہوتی رہتی ہے۔ آئے روز خلا میں نئے نئے انکشافات اور خلا کے رازوں سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ یہ نئی نئی ایجادات، دریافتیں اور انکشافات دنیا بھر کے میڈیا کی ذینت بنتے رہتے ہیں۔ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی باقی دنیا کی طرح اِن خبروں کو شائع کرتارہتا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے سے پڑھے لکھے اور سائنس کو ملک میں سب سے زیادہ سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے ہمارے کچھ دوست احباب اِن سائنسی ایجادات کی خبروں کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اکثر یہ پوسٹیں لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دنیا سائنس میں اتنی ترقی کر چکی ہے اور ہمارے مولوی حضرات ابھی تک مولی اور گاجر کاٹنے کا شرعی طریقہ ڈھونڈرہے ہیں۔ کچھ پوسٹوں میں لکھا نظر آتا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ کر ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے اور ہم ابھی تک غسل کے طریقوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کچھ میں یہ درج ہوتاہے کہ سائنس کمیونٹی دنیا میں ایجادات کرکے دنیا کیلئے آسانیاں پیدا کررہی ہیں اور ہمارے مولوی حضرات نے لوگوں کو فرقہ پرستی میں اُلجھایا ہوا ہے۔ یہ پوسٹیں اتنی عام اور تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے کہ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ کی نظروں سے بھی ایسی پوسٹیں ضرور گزری ہونگی۔

میں مانتا ہوں کہ ہمارے مولوی حضرات نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو کہ اُنہیں کرنی چاہیئے تھی۔ اُنہوں نے قوم غیر ضروری اور غیر اہم مسلکی الجھنوں کا شکار کئے رکھا، جو مسائل تھوڑی سی محنت کرکے حل کئے جاسکتے تھے انہیں بھی ماؤنٹ ایورسٹ بنا رکھا ہے۔ ایک طرح سے یہ فرقہ پرستی مولوی حضرات کیلئے ضروری بھی ہے کیونکہ اُن کے "بریڈ اینڈ بٹر" کا تقاضا یہی ہے کہ قوم فرقہ پرستی میں الجھ کر اُن کی باتوں میں پھنسی رہے اور اُن کی دال روٹی یونہی چلتی رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر فرقے نے اپنی مرضی کا سلام بنا رکھا ہے۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کے دلوں کوآپس میں جوڑنے کی بجائے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے نفرت پیدا کرنے کا کام زیادہ کیا ہے۔

میں یہ بھی ماننے کو تیار ہوں کہ ہمارے ملک میں موجود مدارس مذہب کی تعلیم سے زیادہ اپنے فرقے کی جانب سے تیار کردہ نصاب پڑ ھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے اپنے " بزرگان دین" پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے۔ دوسرے فرقے والوں کو اسلام سے خارج، بے دین اور پتا نہیں کیا کیا کہاجاتا ہے۔

مگر اس سب سے قطع نظرکے مدارس میں جو بھی پڑھایا جاتا ہو یا مولوی حضرات اپنے خطبات میں جو بھی کہتے رہے ہو پر مولوی حضرات یا مدارس والوں نے کبھی بھی اِس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اعلیٰ درجے کے سائنسدان، ریاضی دان یا خلاباز تیار کریں گے اور ناہی کبھی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ماہر معیشت دان، انجینئرز یا زراعت کے ایسے ماہرین پیدا کریں گے کہ جو ملک و قوم کی خدمت کرنے کا سبب بنیں گے۔ اہل مدارس اس ساری ذمہ داری سے بری الذمہ ہے کیونکہ انہوں نے کبھی اس طرح کے دعوے سِرے سے کئے ہی نہیں اسلئے اُن پراِس حوالےسے تنقید کرنا بھی درست عمل نہیں ہے۔

اعلیٰ درجے کے سائنسدان، ماہر معیشت دان، انجینئرز یا ماہر زراعت پیدا کرنے کی ذمہ داری تو ہمارے تعلیمی اداروں نے اٹھائی تھی۔ آج تک کسی کالج یا یونیورسٹی کو انٹر نیشنل لیول کے سائنسدان، ماہر معیشت دان یا انجینئرز پیدا کرنے سے کسی مولوی یا مدرسے نے کبھی نہیں روکا، نا کبھی اِس عمل کے خلاف کوئی احتجاج کیا اور ناہی اِس مقصد کے حصول میں مولوی حضرات نے کسی کالج یا یونیورسٹی کے خلاف کوئی رکاوٹ کھڑی کی۔ بلکہ جتنی آزادی ہمارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ہے ایسی آزادی تو دنیا میں شازو نادر ہی کہیں اور میسر ہوگی۔

گلی گلی میں قائم ہوئے سکول اپنی مرضی کا نصاب پڑھانے میں آزاد ہیں۔ ایک سکول آکسفورڈ کا سلیبس پڑھانے کا دعویدار ہے تو وہی چند گلیاں چھوڑکر دوسرا سکول کیمبرج کا سلیبس پڑھانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ایک ہی کلاس کا نصاب اور یونیفارم تک دو سکولوں میں ایک جیسا نہیں ہے۔ اتنی آزادی اور اپنی مرضی کا نصاب پڑھانے کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی ادارے کوئی خاطر خواہ کارنامہ سر انجام دینے میں ناکام ہیں۔

یہی صورتحال ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ہے۔ بڑے بڑے بِل بورڈزپر اشتہارات، اعلی شان عمارتیں، لاکھوں کے حساب سے فیسیں، غیر نصابی سرگرمیوں کے اخراجات اور دیگر چونچلے الگ سے کرنے کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی ادارے آج تک کوئی ایسا سائنسدان، انجینئرز اور ماہر معیشت دان پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو بین القوامی سطح پر ملک کی پہچان بن سکیں۔

آپ ہمارے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا اندازہ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے آج تک کوئی ایسا ماہر معیشت دان پیدا نہیں کرسکے جو دہائیوں سے چلی آرہی ملکی ابتر معاشی صورتحال کو سدھار سکے نا ہی کوئی ایسا زرعی ماہر پیدا کر پائے جو رزاعت میں انقلابی جدت لا سکےاور ناہی ایسے ڈاکٹرز پیدا کرسکے کہ جنہوں نے میڈیکل سائنس کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا ہو۔ یونیورسٹیز اور کالجز کو کبھی کسی نے بہترین قسم کی لیبارٹریز بنانے، ریسرچ کرنے یا تجربات کرنے سے نہیں روکا۔ لیکن یہ سب کبھی ہمارے تعلیمی اداروں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔

کالجز اور یونیورسٹیز والوں کو صرف اپنی فیسوں سے مطلب ہے کوئی کلاس میں آرہا ہے کہ نہیں اُنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے جو پیدا کررہے ہیں وہ ہے صرف ٹِک ٹاکر یا سستے قسم کے یوٹیوبر۔۔ آپ چیک کرلیں ٹک ٹاک یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس سے بھری پڑی ہے۔ سٹوڈنٹس سارا دن یونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ٹِک ٹاک بناتے ہیں، اپنے فالورز بڑھاتے ہیں اور شام کواپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے انہی ٹِک ٹاکرز کو اپنے ہاں سیمینارز میں بلاتے ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں نے کوئی ایسا ذہین ذہن آج تک تیار ہی نہیں کیا کہ جس کو اپنے سیمینارز میں بُلا کر سٹوڈنٹس کو متاثر کرسکے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسی پوسٹیں کرنے والوں کی اکثریت بھی اِنہی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہے بلکہ کچھ پوسٹیں کرنیوالے تو وہاں کے پروفیسرز تک ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایسی پوسٹیں کرکے مولوی حضرات یا مدرسوں کو ٹارگٹ بنانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ سائنسی ترقی کی ذمہ داری تھی کس کی اور کیا جنہوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے کے دعوے کئے تھے انہوں نے اپنے دعوں کو پورا کیا یا نہیں۔ ہمیں ایسی پوسٹیں کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیئے کہ کہیں ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بوجھ کسی اور پر تو نہیں ڈال رہے۔

مگر مجھے یقین ہے کہ ایسا کوئی نہیں سوچے گا کیونکہ ذمہ داری اور خو داحتسابی ہمارے معاشرے میں ندارد ہے۔

Check Also

Munhasir Donald Pe Ho Jis Ki Umeed

By Irfan Siddiqui