Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Pardes Aur Shadi

Pardes Aur Shadi

پردیس اور شادی

عرب ممالک میں تیل 1938ء تک دریافت ہوچکا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد تیل کی کھپت اور اس کی پیداوار میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی آتے تک دنیا میں تیل کی طلب میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عرب ممالک کو اپنے ہاں کام کرنے کیلئے غیر ملکی مزدوروں کی کمی محسوس ہوئی تو پاکستان سمیت دوسرے ایشیائی ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں عرب ممالک میں مزدوری کرنے کیلئے جانے لگے۔

پاکستان میں خصوصاً پنجاب سے لوگ قطار در قطار عرب ممالک میں پہنچنے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان میں چونکہ معاشی حالات نازک ہیں، بیروزگاری عروج پر ہے اور عرب ممالک کی کرنسی بھی پاکستان کی کرنسی سے نسبتاً کافی بہتر ہیں اسلئے لوگ خصوصاً نوجوان لوگ عرب ممالک میں جاکر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ اچھے پیسے کماکر اپنے اور اپنے گھر والوں کے حالات کو سدھار سکیں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ پردیس میں روزی روٹی کمانے جاتے ہیں اُن کے گھر والوں کے حالات واقعی سدھر جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ کہ صرف گھر والوں کے ہی حالات بدلتے ہیں۔ وہ پردیسی خود تو پورے خاندان سے کٹ جاتے ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی خوشی سے محروم ہو جاتے ہیں یا کردیئے جاتے ہیں۔ اُ ن کے گھر والوں کے حالات میں تو بہتری آنے لگتی ہے پر وہ خود عید کے دنوں پر بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، دو جوڑوں میں پورا پورا سال گزاردیتے ہیں، کام سے واپس آکر کپڑے خود دھوتے ہیں، کھانا خود بناتے ہیں، اگر طبیعت نہیں ٹھیک یا پکانے کو دل نہیں کر رہا تو چہرے کو بانہوں میں چھپاکر چپ چاپ آنسو بہا کر بھوکے ہی لیٹے رہتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں کون ہے جو اُن کا خیا ل رکھے یا اداسی کی صورت میں کون ہیں جو آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو صاف کرے۔ موسم کی سختیاں اور لوگوں کے سرد رویوں سمیت وہ سب کچھ اکیلے ہی برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اگر خوش قسمتی سے ماں پردیسی بیٹے کیلئے بہو بیاہ کر لے آئےتو ایک اور نئی زندگی ہوتی ہے کہ جس کو کشمش میں ڈال دیا جاتا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے کا گھر اور ریال میں ہونے والی کمائی دیکھ کر بیٹی کا رشتہ تو کردیتے ہیں مگر بیٹی کو بعد میں کس ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔ میاں شادی کے تین یا چار مہینے بعد ہی واپس پردیس چلاجاتا ہے اور تین تین سال تک واپس آنے کا نام نہیں لیتا کئی ایک کیسز میں تو دورانیہ 5 سال تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ شوہر پردیس میں خود ساختہ مجادلے کاٹنے پر مجبور ہوتا ہے اور دوسری طرف بیوی آہستہ آہستہ ذہنی مریضہ بنتی چلی جاتی ہے۔

سسرال والے الگ سے جینا حرام کئے رکھتے ہیں، بیوی بیچاری شوہر کی خدمت کرنے کی بجائے اپنے ساس سسر کی خدمت کرنے اور اپنی نندوں کی ملازمہ بن کر رہ جاتی ہے۔ میکے والے اُسے سب کچھ" قسمت کا لکھا "سمجھ کر قبول کرنے کیلئے مسلسل جذباتی بلیک میل کرتےرہتے ہیں اور سسرال والے اُسے شوہر کی جانب سے ملنے والے پیسوں کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سمجھ پاتا یا پھر سمجھتے ہوئے بھی سب انجان بنے رہتے ہیں کہ پیسا وقتی خوشی تو دے سکتا ہے مگر جنسی آسودگی اُسے صرف اپنے شوہر سے حاصل ہوسکتی ہے۔ جسمانی سُکھ کی کمی ساری دنیا کی دولت مل کر بھی پوری نہیں کرسکتی۔ جو جذباتی وابستگی اُسے اپنے شوہر کی طرف سے چاہیئے ہوتی ہے وہ اُسے اور کوئی فراہم نہیں کرسکتا۔

اس صورت میں عورت کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں یا تو وہ اپنی جنسی خواہشات کو اپنے اندر ہی دفن کرکے ایک زندہ لاش بن کر رہ جائے یا پھر غلط راستوں کی پگڈنڈیوں پر چل پڑے۔ میں جانتا ہوں کہ اب میں جوبات کہنے جارہا ہوں وہ بہت سو ں کو انتہائی ناگوار گزرے گی اسلئے میں پیشگی معافی کا طلبگار ہوں مگر سچ مانے میں خود ماؤں بیٹیوں والا ہوں، میں حلفاً کہہ رہا ہوں کہ میں نے یہ چیزیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے کہ جن بیویوں کے شوہر سالہا سال تک واپس نہیں آتے، وہ سب تو نہیں۔۔ بلکہ اُن میں سے چند ایک دوسرے مردوں کے ساتھ دوستیاں بڑھا نا شروع کردیتی ہے اور کئی دفعہ تو بات دوستی سے بھی کہیں آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ جس پر ہمارا معاشرہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے رکھتا ہے حتیٰ کہ ایسے کئی ایک کیسز میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں اور اخبارات کی ذینت بھی بن چکے ہیں۔

بیوی سے دور رہنے پر اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہے۔ میں نے اِس حوالے سے جتنی بھی تحقیق کی ہے اُس تحقیق کی بنیاد پرمیں اِس بات پر پہنچا ہوں کہ اسلام میں شوہر کیلئے یہ واجب نہیں کہ وہ اپنی بیوی سے چار ماہ سے زائد عرصے تک دور ی بنا کر رکھے۔ اگر چار ماہ سے بھی زائد عرصے کیلئے بیوی کے پاس آنا ممکن نہ ہو تو پھر شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کو اپنے ساتھ رکھے۔ حقوق زوجیت ادا کرنا مرد پر لازم ہے۔ ضروری نہیں میری یہ تحقیق حرف آخر ہی ہو۔۔ بہتری کی گنجائش بہر حال ہر جگہ موجود رہتی ہے۔

دوسری طرف پردیس میں گیا ہوا شخص گھر والوں کیلئے صرف ATM بن کر رہ جاتا ہے۔ گھر والوں کی، بھانجوں بھتیجوں کی فرمائشیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کبھی گھر پکا کروانے، کسی بھائی کو کاروبار کروا کر دینے، بہن کا جہیز بنانے اور کسی نا کسی بہنوئی کی کوئی نا کوئی خوشی خرید کر دینے میں ہی ساری زندگی رائیگاں ہوجاتی ہے۔ آخر میں صرف بوڑھا بے جان جسم بچتا ہے جسے پردیس کی ہی کوئی کمپنی کفن میں لپیٹ کر واپس بھیج دیتی ہے۔

اگر شومئی قسمت وہ زندہ بچ بھی جائے تو واپسی پر کاروبار بھائیوں کا ہوچکا ہوتا ہے اور گھر کے کئی کئی حصے ہوچکے ہوتے ہیں۔ جس گھر اور گھر والوں کیلئے اُس نے ساری زندگی گال دی ہوتی ہے اُسی گھر میں سے ایک چھوٹا سا حصہ اسے سونپ دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی باقی تمام زندگی یا تو چھوٹی سے دوکان کرتے ہوئے گزارتا ہے یا کوئی چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرتے ہوئے گزاردیتا ہے۔ جن بہن بھائیوں کیلئے وہ ساری زندگی جان مارتا رہا ہوتا ہے وہ خو دتو اپنی اپنی زندگیوں میں سیٹ ہوچکے ہوتے ہیں اور معاشی طور پربھی مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں مگر پردیس میں رہنے والا آخر میں خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔

ایک ایسے ہی حالات کے مارے ہوئے شخص نے اپنی آنکھوں میں بے بسی سے آجانے والے آنسو صاف کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میں جب سعودیہ میں 20 سال لگا کرواپس آیا تو میرے حصے میں صرف 2 مرلے کا ایک مکان آیا۔ جب معاشی حالات بہت زیادہ سخت ہوئے تو بھائیوں سے پیسوں کیلئے مدد مانگی مگر سب نے انکار کردیا۔ آخر کار مجبور ہوکر جب مکان بیچنے کی نوبت آئی تو سب سے پہلے بھائیوں نے ہی مکان خریدنے کیلئے ریٹ لگائے۔

اس واقعے سے سبق حاصل کریں۔ خدارا کم کمالے، تھوڑا کھالے مگر اپنے ملک میں رہے۔ اپنی زندگی فیملی اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی گزارے۔

Check Also

Israel Mukhalif Yahudion Ki Jad o Jehad (2)

By Wusat Ullah Khan