Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Pakistan Aur Iran

Pakistan Aur Iran

پاکستان اور ایران

پاکستان کے اپنے قیام کے وقت کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ ایران دنیا کا پہلا ملک تھا۔ جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں بھی ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ مگریہ سب اُس ایران کی باتیں ہے کہ جس پر شاہ ایران کی حکومت قائم تھی۔ 1979ء میں آنیوالے ایرانی انقلاب نے شاہ کی حکومت ختم کردی اور اُس کی جگہ آیت اللہ خامنہ ای کی نظریاتی حکومت قائم ہوگئی۔ ایران میں انقلابی حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان کے ایران سے اچھے تعلقات قائم رہے مگر وہ روایتی گرم جوشی شاید برقرار نہ رہ سکی۔

ایرانی انقلاب نے اپنی قوم کو دو نعرے دیئے مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل یعنی امریکہ مردہ باد اور اسرئیل مردہ باد۔ انقلاب کے ساتھ ہی ایران کی امریکہ اور بالخصوص اسرائیل کے ساتھ شدید ترین دشمنی شروع ہوگئی تھی۔ اِس دشمنی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایران ایٹمی طاقت کے حصول کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن اسرائیل کسی بھی صورت ایران کو ایٹمی طاقت بننے نہیں دینا چاہتا۔ اسرائیل متعدد بار ایران کو خود کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی مدد سے ایران پر تجارتی پابندیاں عائد کرکے اور اپنے سائبر حملوں سے ایران کی راہ روکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بات صرف سائبر حملوں تک محدود رہتی تو پھر بھی ٹھیک تھا، مگر اسرائیل باقاعدہ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث رہا ہے۔

ایران بھی بدلے میں لبنان اور اسرائیل کے بارڈر پر موجود حزب اللہ جو اسرائیل کیلئے مسلسل درد سر بنی رہتی ہے، کو سپورٹ کرتا رہتا ہے۔ حالیہ شروع ہونے والی اسرائیل اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل ایران پر الزام لگاتا رہا ہے کہ ایران حماس کو سپورٹ کرتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے بھی یمن کی طرف سے بحرہ احمر میں بحری جہازوں پر کیے جانے والے حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا ماننا ہے کہ ایران یمن کو سپورٹ کر رہا ہے اور نہ صرف سپورٹ بلکہ پیسے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے بھی یمن کی مدد کر رہا ہے۔ ایران بیک وقت امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے ساتھ ایک لحاظ سے حالت جنگ میں ہے۔

25 دسمبر 2023ء کو اسرئیل نے شام میں ایران کے ایک اہم کمانڈر اور سیکورٹی ایڈوائزر سید رضا موسوی کو ہلاک کردیا۔ ایران نے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا مگر ہفتوں گزرنے کے بعد بھی ایران اسرائیل کے اِس پائے کے کمانڈر یا جرنیل کو ہلاک نہیں کر سکا۔ 3 جنوری 2024ء کو ایران میں جنرل قاسم سلیمانی کی برسی منائی جارہی تھی۔ جس پر دھماکے ہوئے اور 100 سے زائد ایرانی مارے گئے۔ ایران نے ایک بار پھر اسرائیل پر ان حملوں کا الزام لگاتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

17 جنوری کو ایران کے اخبار تہران ٹائمز میں ایک خبر چھپتی ہے کہ ایران نے شام، عراق اور پاکستان پر حملہ کرکے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ٹارگٹس کو میزائلوں سے نشانہ بنا کر بدلہ لے لیا ہے۔ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ ایران جس اسرائیل سے بدلہ لینے کی باتیں کر رہا تھا۔ اُسی اسرائیل پر ڈائریکٹ حملہ کرنےکی بجائے ایران نے اپنے تین اسلامی ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے اُن پر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے اِس حملے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور ایران کے سفیر جو ایران میں ہی موجود تھے۔ انہیں پاکستان واپس آنے سے منع کردیا۔ پاکستان اس حملے کا جواب دینے کا حق رکھتا تھا اور پاکستان نے یہ حق استعمال بھی کیا۔ پاکستان نے جواب میں ایران کے صوبے سیستان میں موجود بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر تباہ کردیا۔

اب اِن حملوں پر ہمارے کچھ تجزیہ نگاروں کے دل ایران کی محبت میں ڈوبے جارہے ہیں اور پاکستان ایران کشیدگی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے اسے پاکستان کی سفارتی ناکامی ٹھہرا رہے ہیں اور کچھ تو دُور کی کوڑی لاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ پاکستان کے سوائے چین کے اپنے کسی بھی ہمسائے کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہے۔

اُن کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضور آپ کی باتیں بجا کہ پاکستان کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں ہے پر اس میں پاکستان سے زیادہ پاکستان کے پڑوسیوں کی توسیع پسندانہ سوچ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بھارت پاکستان کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور کئی بھارتی وزیر تو پاکستان کے ان علاقوں کو جنگ کے ذریعے پاکستان سے چھین لینے کے بیانات دے چکے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے مگر ہر بار بھارتی ہٹ دھرمی آڑے آجاتی ہے۔

افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد کو ڈیورنڈ لائن (Durand Line) کہا جاتا ہے۔ افغانستان اس ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے ہی انکاری ہے اور پشاور سے لیکر اٹک کے علاقہ کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی حکومت کے سامنے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو بھی اٹھایا مگر کبھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ جب آپ کے ہمسائے آپ کے آدھے ملک کو ہڑپ کرنے کے درپے ہو اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر تیار نا ہو تو اس میں پاکستان کی سفارتی ناکامی کیسے ہوگئی؟

پاکستان نے ایران کے سامنے بھی بی ایل اے اور بی ایل ایف کی ایرانی صوبے سیستان میں موجودگی کے مسئلے کو اٹھایا اور اس حوالے سے ڈوزیئر اور ثبوت بھی فراہم کئے گئے مگر اس سرگرمی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ میں ایران کی محبت میں ڈوبے ہوئے دوستوں کو یاد دلاتا چلوں کہ کلبھوشن یادیو بھی ایران سے ہی آپریٹ کرتا تھا۔ یہاں تک بات ہے۔ پاکستان کے جوابی حملے کی تو اگر پاکستان اس حملے کا جواب نہ دیتا تو ساری دنیا میں اسے پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کیا جاتا۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ملکوں کو رکھ رکھاؤ اور اپنی ساکھ کو بچانے کیلئے بہت کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر ایران کسی ایٹمی طاقت پر براہ راست حملہ کرتا ہے تو ایران کو خو د کوبھی جوابی حملہ کیلئے تیار رکھنا چاہئے۔

میں اپنے تجزیہ نگاروں سے یہ بھی گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم بھی ملکی سلامتی کے اداروں کی سیاست میں مداخلت کے ناقد ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملکی سلامتی جیسے حساس موضوع پر بھی سیاست ہی کی جائے۔

ایران نے ابھی تک اپنی پراکسیز کے ذریعے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کیلئے مشکلات کھڑی کر رکھی ہے اور یہ تینوں ملک ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکے اگر اس وجہ سے ایران کی خود اعتمادی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے تو ایران کو یاد رکھنا چاہئے 90ء کی دہائی میں روس نے بھی حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوکر ہو کر پشاور پر سرخ دائرہ لگادیا تھا، امریکہ پچاس ملکوں کے ساتھ افغانستان میں پاکستان پر نظریں جما کر بیٹھ گیا تھا اور بھارت نے تو 2019ء میں پاکستان میں گھسنے کی کوشش بھی کی تھی تو ان تینوں ملکوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ حد سے زیادہ بڑھی خود اعتمادی اور طاقت کے نشے میں چور قوموں کا پاکستان میں شافی علاج پہلے بھی کیا جاتا تھا اور اب بھی کیا جاتا ہے۔

Check Also

Israel Mukhalif Yahudion Ki Jad o Jehad (2)

By Wusat Ullah Khan