Motivational Speaker
موٹی ویشنل اسپیکر
مچھلی ہمیشہ سے ہی انسان کی محبوب غذا رہی ہے۔ انسان تب بھی مچھلیوں کا شکار کرتا تھا جب وہ غاروں میں رہتا تھا اور سارا دن جنگلوں میں شکار کرتا تھا اور مچھلی اب بھی انسانوں کی پسندیدہ غذا ہے کہ جب انسان جدید نظام زندگی میں ڈھل چکا ہے اور سائیکل سے لیکر ہوائی جہاز تک بنا چُکا ہے۔
شاید یہ بات آپ کیلئے حیران کن ہو کہ مچھلیوں کی اب تک پینتیس ہزار سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہے یعنی اگر ہم روز ایک نئی قسم کی مچھلی کھائیں تو ہم شاید 90 سال سے تک ان کو کھا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پھل بھی اس میں شامل ہیں۔ اس وقت دنیا میں 7500 قسم کا سیب موجود ہے یعنی اگر ہم روز ایک نئی قسم کا سیب کھاتے ہیں تو ہم 20 سال تک ان کو کھا سکتے ہیں۔ سیب اور مچھلیوں کی تمام اقسام اپنے ذائقے، ساخت اور سائز میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ایک ہی پھل یا جانور کی اتنی ساری اقسام پیدا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت صرف پھلوں یا جانوروں تک محیط نہیں اس میں انسان بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بھی مختلف اقسام میں پیدا فرمایا ہے اور یہ انسان بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے، ظاہر ہے انسان ایک دوسرے سے ذائقے اور ساخت میں نہیں بلکہ اپنی عادات، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے مختلف ہے۔
کوئی ہر سال کلاس میں ٹاپ کرتا ہے اور کوئی ایک ہی کلاس میں کئی کئی سال نکال دیتا ہے۔ کوئی 2 من وزن اٹھا لیتا ہے اور کوئی 10 کلو وزن اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ کسی میں اللہ تعالیٰ نے سیکھنے کی صلاحیت رکھی ہے اور کسی کو بھولنے کی بیماری ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا فرمایا تو انسانوں کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کیلئے رزق کے ذرائع بھی ساتھ ہی پیدا کردئیے۔ کوئی محنت مزدوری کرکے، کوئی آٹھ گھنٹے کی جاب کرکے یا کوئی کاروبار کرکے اپنے حصے کا رزق حاصل کرتا ہے۔
مگر ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو شاید جاب کرنیوالے افراد سے خاص عداوت ہے۔ ان کے نزدیک صرف کاروبار کرنیوالے اور زیادہ پیسہ کمانے والے افراد ہی کامیاب ہے۔ کامیابی کی یہ تعریف اُتنی ہی نرالی ہے جتنی ان کے اپنے لیکچرز میں دی جانے والی مثالیں۔ پاکستان میں رہ کر یورپی اور امریکی ارب پتیوں کی مثالیں دیتے ہے کہ کیسے وہ دیکھتے ہی دیکھتے راتوں رات امیر ہوگئے اور اب دنیا کو چلا رہے ہیں۔ مثالیں دیتے وقت ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ امریکی یا یورپی لوگوں کو جو سہولیات یا مواقع اُن کی حکومتیں اُن کو مہیا کرتی ہے کیا وہی سہولیات یا مواقع پاکستانیوں کو بھی میسر ہے؟ کیا ہمارا سسٹم بزنز فرینڈلی ہے؟ دبئی میں آپ ایک گھنٹے میں پراپرٹی خرید کر اپنے نام کرواسکتے ہیں اور 24 گھنٹوں کے اندر اپنی کمپنی کھڑی کرسکتے ہیں۔ کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟ امریکہ میں اَن گنت ادارے موجود ہیں جو نئے کاروباروں میں انویسٹ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ ادارے انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔
موٹی ویشنل اسپیکرز کا ایک اعتراض comfort zone کمفرٹ زون بھی ہے۔ یہ لوگ اپنے علاوہ کسی کو بھی کمفرٹ زون میں نہیں رہنے دینا چاہتے۔ ایک انسان جس نے 20 سال پڑھائی کرکے اور سالوں محنت کے بعد اپنا کرئیر بنایا اور اب اپنی زندگی میں اتنا سیٹل ہے کہ اس مہنگائی کے دورمیں اس کا گزارا اچھا ہو رہا ہے، بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جہاں اس کیلئے آگے بڑھنے کے چانسز بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز یہ چاہتے ہیں کہ اس انسان کو اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر، سالوں کی محنت پر پانی پھیر کر کاروبار میں اپنی قسمت آزمانی چاہئے جس میں نا اس کا تجربہ ہے اور نہ ہی اتنا سرمایہ۔ یہ ضروری تو نہیں کہ اپنی ملازمت میں کامیاب انسان ایک کامیاب بزنز مین بھی بن سکتاہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی مثالیں موجود ہے کہ لوگوں نے اچھی بھلی ملازمت کو چھوڑا اور کاروبار میں اپنی قسمت آزمائی مگر وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو سمجھنا چاہئے کہ پڑھائی اور رزق کا آپس میں کوئی ڈائریکٹ تعلق نہیں ہے۔ اگر رزق کا میعار اعلی تعلیم ہوتا تو اَن پڑھ انسان تو بھوکے مر جاتے۔ رزق تو خاص اللہ کی عطا ہے، وہ جسے چاہتا ہے زیادہ عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے تھوڑا عطا کرتا ہے۔ زندگی کامقصد صرف پیسا کمانا، بڑا گھر بنالینا یا قیمتی گاڑیوں میں گھومنا اور اس مقصد کیلئے ہر حد کو توڑ دینا نہیں ہے۔ ایسی زندگی کی تمنا اہل یورپ تو کر سکتے ہیں جہاں صرف پیسا ہی ان کا سب کچھ ہے اور حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہے۔
مگر ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور زندگی گزارنے کا سلیقہ اس سے بہت مختلف ہے۔ کیا کبھی ہمارے نبی کریم ﷺ نے زیادہ مال و دولت کی کی خواہش کی یا کبھی صحابہ کرام اجمعین نے زندگی کا مقصد مال و دولت کو بنایا۔ اور ویسے بھی قرآن پاک میں تو مال و دولت کو فتنہ تک کہا گیا ہے۔ ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز کو چاہئے کہ صرف پیسے کمانے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نیکی کرنے اور ایک دوسرے سے صلہ رحمی کا بھی درس دے دیا کریں اور ایلون مسک، جیف بیزوس اور مارک زکر برگ کےساتھ ساتھ حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں بھی لوگوں کو بتایا کریں کہ جن کا بنایا ہوفلاحی نظام دنیا آج بھی فالو کررہی ہے۔