Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Islam Ko Khatra Magar Kis Se

Islam Ko Khatra Magar Kis Se

اسلام کو خطرہ مگر کس سے

ایک اندازے کے مطابق قدیم ہندوستان کی تاریخ پانچ ہزار سال یا شاید اُس سے بھی زائد پرانی ہے۔ 712ء میں محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کے نتیجے میں سندھ فتح ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں آکر بسنے لگی۔ اِن مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان صوفی بھی خاصی تعداد میں ہندوستان پہنچنے لگے اور یوں صوفی ازم بھی بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں پھیلنے لگا۔ مسلمان صوفی چونکہ پورے ہندوستان میں پھیل کر اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے اسلئے آہستہ آہستہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔

تب کا ہندوستان ایک اکائی یا ایک ملک ہونے کی بجائے کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم تھا جس پر مختلف راجے اور مہاراجے حکومت کیا کرتے تھے۔ 1000ء سے لیکر 1027ء تک محمود غزنوی کے ہندوستان پر مسلسل حملوں کی وجہ سے ہندوستان کے کئی علاقوں پر مسلمان اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ مسلمان تب ہندوستان کے چند علاقے ہی فتح کر پائے تھےتاہم مکمل ہندوستان کو فتح کرنے میں فی الحال ناکام تھے۔ 1192ء میں شہاب الدین غوری نے دہلی پر حملہ کیا۔ دہلی پر تب راجپوتوں کی حکومت قائم تھی اور اس حکومت کی کمان پرتھوی راج چوہان کے ہاتھوں میں تھی۔ شہاب الدین غوری نے طویل جنگ کے بعد پرتھوی راج چوہان کو شکست دی، دہلی کو فتح کیا اور خود سلطان محمد غوری بن گئے۔ سلطان محمد غوری نے ہندوستان میں دہلی سلطنت کی بنیاد رکھی اور یوں مسلمانوں کی حکومت کاہندوستان میں باقاعدہ آغاز ہوگیا۔

اِس کے بعد ہندوستان اور دہلی پر مختلف مسلمانوں کے دور حکومت رہےجن میں خلجی، تغلق اور لودھی نمایاں تھے۔ سب سے آخر میں مغل آئے اور اس کے بعد مسلمانوں کی بادشاہت ہندوستان میں ختم ہوگئی۔ تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ ہندوستان میں حکمران رہے۔ یہ صرف مسلم حکمرانی کی بات ہے حالانکہ مسلمانوں کی ہندوستان میں موجودگی تو بارہ سو سال سے بھی زائد پرانی ہے۔ اِن بارہ سوسالوں میں مسلمان ہندوؤں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مِل جل کر رہے۔ گاؤں میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے گھر ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے، آپس میں یاریاں دوستیاں ہوتی تھے، گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو عید کی مبارکبادیں بھی دیا کرتے تھےاور بیساکھی کی خوشیاں بھی اکٹھی منایا کرتے تھے۔ گاؤں میں ایک ہی کنواں ہوتا تھا جس میں سے سب مسلمان، ہندو اور سکھ پانی بھرا کرتے تھے۔

جانوروں کو چَرانے سے لیکر کھیتوں میں ہَل چلانے تک سب کام ایک ساتھ کئے جاتے تھے۔ اسکولوں میں ٹیچرز مسلمان بھی ہوتے تھے، ہندو اور سکھ بھی ہوتے تھے۔ کسی کو بھی کسی سے علم حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا تھا۔ ہندو ہولی کا سامان مسلمانوں کی دوکانوں سے خرید لیا کرتے تھے اور مسلمان عید کے کپڑے ہندوؤں کی دوکانوں سے خرید لیا کرتے تھے۔ ایک ہی گاؤں میں مسجد، مندر اور گوردوارہ بھی موجود ہوتا تھا۔ ابھی بھی پاکستان میں ایسے گاؤں موجود ہے جہاں گوردوارے اپنی اصل شکل میں نہیں تو کھنڈرات کی شکل میں موجود ہے۔ تب ہندوستان میں مذ ہبی رواداری کتنی عام تھی آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مغلوں کی فوج میں ہندو بطور سپاہی، فوجی کمانڈر اور جرنیل موجود ہوتے تھے بلکہ کئی ایک ہندو تو مغل بادشاہوں کے مشیر تک رہے ہیں اور اسی طرح مغلوں کے مخالف راجپوتوں کی فوج میں بھی مسلمان سپاہی موجود ہوتے تھے۔ کسی کو مذہب کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا تھا بلکہ صرف اور صرف قابلیت کو ترجیح دی جاتی تھی۔

دلچسپ بات یہ کہ مسلمان ہمیشہ سے ہی ہندوستان میں اقلیت میں رہے ہیں مگر پھر بھی کبھی اسلام خطرے میں نہیں آیا۔ مسلم اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی کوئی غیر مسلم شخص ہندوستان میں نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور نا ہی کسی میں اتنی ہمت تھی کہ قرآن پاک کو جلا سکے۔ 1857ء کے بعدجب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو اُن کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو "کی پالیسی کے تحت ہندوستان کی عوام کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا گیا جس کے نتیجے میں راج پال نے گستاخانہ کتاب لکھی اور غازی علم الدین شہید نے اُس کو واصل جہنم کیا۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی دلخراش واقعہ رونما نہیں ہوا یا کم سے کم میری نظر سےتو نہیں گزرا۔

تقریباً دس صدیاں ایک ساتھ گزارنے کے بعد ہمارے بڑوں کو اچانک سے محسوس ہونے لگا کہ اب ہم ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتے۔ ہمارے اعلیٰ دماغوں نے یہ محسوس کیا کہ ہندو جو خود بارہ سو سال سے۔۔ پہلے مسلمانوں اور پھر انگریزوں کے غلام تھے، وہ مستقبل میں ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے۔ ہماری عام عوام کو یہ باور کروایا گیا کہ اگر ہم ہندوؤں کے ساتھ رہیں گے تو ہماری ساری زندگی کسی ہندو کے باتھ روم صاف کرتے ہوئے گزر جائیگی۔ چنانچہ ہم نے ہندوؤں اور سکھوں کی ممکنہ غلامی سے بچنے کیلئے لاکھوں لوگوں کو ذبح کرواکر اورا َن گنت عورتوں کی عزتیں لُٹا کر ایک نیا ملک بنا لیا۔ ایک ایسا ملک جس میں 96 فیصد مسلمان تھے۔ جہاں مسلمانوں کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا تھا، جہاں اسلام آزاد تھا۔

ہمارے حصے میں جو زمین کا ٹکڑا آیا اُس ٹکڑے میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود تھا، پنجاب کی سب سے زرخیز زمین ہمارے حصے میں آئی، ہمارے شمالی علاقہ جات اتنے خوبصورت ہے کہ اُن میں دس سوئزرلینڈ بنائے جاسکتے ہیں جس میں ہم صرف سیاحت کو فروغ دیکر اربوں ڈالرسالانہ کماسکتے ہیں، ہمارے حصے میں جو زمین آئی اُس میں چار موسم ہیں، ریگستانوں اور سمندروں کی تہوں میں قدرتی گیس اور پٹرول کے ذ خائر ہیں۔ تھر میں کوئلے کے پہاڑ ہیں جو ہماری ضروریات کئی صدیوں تک پوری کرسکتے ہیں۔ پہاڑوں میں سونے اور چاندی کے خزانے دفن ہے جو نکالے جانے کے منتظر ہے۔ کھیوڑہ میں پنک نمک کے پہاڑوں کے پہاڑ ہےکہ دنیا جس کے پیچھے پاگل ہیں۔

مگر بنانے والوں نے اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست اور عوام کے رہنے کیلئے ایک پر امن وطن بنانے کی بجائے اسلام کا خود ساختہ قلعہ بنا دیا اور اس قلعے کی پہرہ داری ہمارے مولوی حضرات اور علماء کرام نے اپنے ذمہ لےلی۔ 96 فیصد مسلمان اور اسلام کا قلعہ ہونے کے باوجود بھی اس ملک میں اسلام 76 سالوں سے خطرے میں ہے اور ہمارے مولوی صاحبان اسلام کو خطرے سے باہر نکالنے میں تادم تحریر ناکام ہیں۔

اس قلعے کی حفاظت کے نام پر بے شمار مسالک وجود میں آچکے ہیں۔ ہر مسلک کیلئے دوسرا مسلمان کافر ہے چاہے وہ پانچ وقت کا نمازی ہی کیوں نا ہو۔ صرف اسی یا نوے سال قبل جن مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے، ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے آج وہ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک نہیں پڑھتے۔ جن کے اباؤ اجداد ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ ایک ہی کنویں سے پانی نکال کر پیا کرتے تھے آج انہیں مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کےساتھ کھانا کھانے سے منع کیا جارہا ہےحتیٰ کہ ایک دوسرے سے قربانی کا گوشت تک لینے سے روکا جارہا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

جن کے اباؤ اجداد کے گاؤں میں مندر اور گوردوارے موجود ہوتے تھے وہ آج اپنے گاؤں میں دوسرے مسالک کی مسجدیں تک بننے نہیں دے رہے۔ ہمارا ملک کیسا اسلام کا قلعہ ہے کہ جہاں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، یہاں کسی پر بھی گستاخی کا الزام لگا کر قتل کردیا جاتا ہے اور کوئی ثبوت تک پیش نہیں کیا جاتا۔ مساجد سے اعلانات ہوتے ہیں کہ فلاں نے قرآن پاک جلادیا ہے اور لوگ اُسے قتل کرکے اُس کی لاش کو آگ لگا نے کے بعد بھی ڈندوں سے پیٹتے رہتے ہیں اور ثبوت پھر بھی پیش نہیں کئے جاتے۔ گستاخی کے نام پر انسانی بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے تک والا نہیں ہے۔ 96 فیصد مسلمان والے ملک میں کوئی گستاخی کرنے یا قرآن پاک کو جلانے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتا ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ اتنا اسلام تو متحدہ ہندوستان میں بھی خطرے میں نہیں تھا جتنا آج اسلام کے قلعے میں خطرے میں ہے۔

پچھلے 76 سالوں سے اس اسلام کے قلعے کی دیواروں کو اتنا اونچا کردیا گیا ہے اور ان دیواروں پر مسلکی نفرت کی مٹی لگا لگا کر اِن کو اتنا مطبوط بنا دیا گیا ہے کہ اب اس قلعے میں رہنے والوں کی بے بسی اور کرب کی چیخیں بھی باہر کسی کو سنائی نہیں دے رہی۔ اب اس قلعے میں رہنے والے ایک ہجوم کے رحم و کرم پر ہے کہ پتا نہیں کب کس کی باری آجائے۔

Check Also

Faiz Ahmad Faiz, Faiz Festival Mein

By Mojahid Mirza