Dobra Election Waqt Ki Zaroorat Hai
دوبارہ الیکشن وقت کی ضرورت ہے
اِس وقت پاکستان کا ٹوٹل بیرونی قرضہ 131 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد صاحب کے دسمبر 2023ء میں دیئے گئے ایک بیان کے مطابق جون 2024ء کے آخر تک ہم نے 24.6 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہے اور شاید یہ بات آپ کے عِلم میں نہ ہو کہ ہمارے فارن ایکسچینج میں اِس وقت صرف 9 ارب ڈالر موجود ہے۔ جو بھی نئی حکومت قائم ہوگی اُسے فوری طور پر قرض کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا ورنہ معاملات پاکستان کیلئے سنگین صورت اختیار کر جائیں گے اور اِس بار جو بھی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے گی اُسے آئی ایم ایف کی طرف سے سخت شرائط کا سامنا کرنا ہوگا اور نئے ٹیکسز عائد کرنے کی کڑوی گولی کو ہر صورت میں نگلناہی ہوگا۔
چونکہ سیاسی استحکام کے بِنامعاشی استحکام محض ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اِسی لئے حالیہ منعقد ہونے والے الیکشنز سےکافی امیدیں وابستہ تھی کہ پچھلے تقریبا دو سالوں سے چلے آرہے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہو جائے گی۔ مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا الیکشن کے فورا بعد ہی دھاندلی کا شور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے پوری شدت سے اٹھایا جانے لگا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے نتائج کے اعلان میں تاخیر نے بھی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ فارم 45 اور فارم 47 کی کہانیاں میڈیا کی ذینت بننے لگی اور ممکنہ دھاندلی کے خلاف جگہ جگہ احتجاج شروع ہوگیا۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ صاحب کے بیان کے بعد بھی اِن الیکشنز کی کریڈیبلٹی پر کافی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ یوکے اور یو ایس جیسے ممالک بھی الیکشنز پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اِسی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں بھی اِس الیکشن کو لیکر جو رپورٹنگ ہو رہی ہے وہ انتہائی Negative ہے اور لیاقت علی چٹھہ کے بیانات کے بعد انٹرنیشنل میڈیا میں جو کہا جا رہا ہے اور جو لکھا جا رہا ہے اُس نے اِن الیکشنز کو دنیا کی نظروں میں انتہائی مشکوک بنا دیا ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ دنیا اور انٹر نیشنل ادارے لیاقت علی چٹھہ کے انکشافات کو یونہی اگنور کردیں گے تویہ اُس کی خام خیالی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اب یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا دنیا اِس الیکشن کو تسلیم کرلیں گی اور خاص کر وہ ممالک جن کے پاس نئی حکومت امداد کیلئے اپنے وفود بھیجے گی کیا وہ اِن الیکشنز کو قبول کرلیں گے یا وہ ادارے جِن کو نئی حکومت قرض کیلئے اپروچ کرے گی کیا وہ ادارے اِس مبینہ دھاندلی کی صورت میں قائم ہوئی حکومت کو تسلیم کرکےقرضے مہیا کریں گے۔ اگر دنیا نے نئی حکومت کو تسلیم ہی نہ کیا تو پھر ہمارے پاس کیا آپشنز باقی بچیں گے۔ پھر ہم قرض اور امداد کیلئے کس کے پاس جائیں گے۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت وفاق میں حکومت بنانے کو تیار نہیں ہے۔ ہر جماعت خود کو اپنے مخصوص صوبے تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور وفاق کا کانٹوں بھرا تاج اپنے سر پر سجانے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے کیونکہ جو بھی جماعت وفاق میں حکومت بنائے گی اُسے سخت ترین فیصلے کرنا ہونگے اور ظاہر ہے جو بھی جماعت سخت ترین فیصلے کرے گی اُس کو اِس کی سیاسی قیمت آنیوالے الیکشنز میں بہر حال چکانا ہوگی۔
پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ن لیگ کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ دینے کو تو تیار ہیں مگر اسمبلی کا حصہ بننے کو تیار نہیں جبکہ ن لیگ اکیلے قربان گاہ میں قربان ہونے کو تیار نہیں اور یوں ڈیڈ لاک ابھی تک برقرار ہے۔
اگر کھینچ تان کر حکومت قائم ہو بھی گئی تو اِیسی حکومت کا چل پانا انتہائی دشوار ہوگا۔ آئے دن اتحادیوں کے نخرے اور فرمائشی پروگرام کوئی بھی زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکے گا اور نئے ٹیکسز کی وجہ سے جو عوام میں بد دِلی پھیلے گی اُس کی متحمل مخلوط حکومت نہیں ہوسکے گی۔ اِسی لئے ایسی حکومت دو سال سے زیادہ نہیں چل پائے گی۔
دوسری جانب جی ڈی اے نے سندھ میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر موجود ہے۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف بھی الیکشنز پر دھاندلی کے الزامات لگارہے ہیں۔ جے یو آئی ف اور تحریک انصاف کے مابین بھی روابط بڑھ رہے ہیں اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اِس وقت سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف نے باقی جماعتوں کے ساتھ مل کر مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی تو اِس کے نتیجے میں جو عوامی طوفان سڑکوں پر امڈ آئے گا اُس کا سامنا نئی حکومت کیسے کر پائے گی اور عوامی سیلاب کے آگے یہ حکومت کہاں تک ٹِک پائے گی۔ اِس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، انٹر نیشنل میڈیا تو پہلے ہی الیکشنز پر تحفظات رکھتا ہے۔
ہم مانے یا نہ مانے ہمیں ملکی معیشت کی بہتری کیلئے جو سخت فیصلے کرنا ہونگے اُس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں ایک ایسی مضبوط حکومت قائم ہو کہ جسے عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہو، ایک پاپولر اور مقبول قیادت جس کے پیچھے عوام کھڑی ہو اور جو ملک کی معیشت کو پٹری پر لاسکے جس کی متوقع قائم ہونیوالی نئی حکومت سے کوئی امید وابستہ نہیں ہے۔ حالیہ الیکشن کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم شاید مزید دلدل میں دھنس گئے ہیں، ایک ایسی بند گلی میں پھنس گئے ہیں کہ جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔
اِس دلدل اور بند گلی سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم ری الیکشن کی طرف جائے اور اِس بار صاف اور شفاف الیکشن منعقد کروا کر اکثریت حاصل کرنیوالی پارٹی کو حکومت سونپ دیں۔ اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کیلئے مشکل فیصلے کرنا مخلوط حکومت کی نسبت زیادہ آسان ہوگا اور اتحادیوں کے نخروں کو برداشت کرنے کی جھنجھٹ بھی نہیں ہوگی۔ وفاق میں کمزور حکومت جی حضوری اور ہر حکم کو بجا لانے کی صلاحیت تو رکھتی ہوگی مگر مشکل فیصلے کرنے سے عاری ہوگی۔ ایک دفعہ دوبارہ الیکشن کروا کر اس دلدل سے نکل جائے یہی مناسب حل ہے اور ری الیکشن ہی وقت کی ضرورت ہے۔ وگرنہ نئی قائم ہونے والی حکومت کی راہ میں سوائے رکاوٹوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔