Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Baghdad Se Europe Tak, Tareekh Ka Sabaq

Baghdad Se Europe Tak, Tareekh Ka Sabaq

بغداد سے یورپ تک، تاریخ کا سبق

ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور عباسی سلطنت کے دوسرے خلیفہ تھے۔ تاریخ میں انہیں خلیفہ المنصور کے نام سےبھی یاد کیا جاتا ہے۔ المنصور 753ء میں خلیفہ بنے اور 762ء میں انہوں نے عباسی خلافت کے دارلخلافہ کیلئے ایک نیا شہر " بغداد" کے نام سے بنانے کی بنیاد رکھی۔ بغدادشہر جب بن کر تیار ہوا تو یہ اپنے زمانےکا جدید ترین شہر تھا۔ بغداد شہر کی انجینئرنگ اور اُس کی عمارتیں اپنی مثال آپ تھی۔ یہ کتنا بڑھا اور کتنا مشہور شہر تھا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ 786ء میں جب خلیفہ المنصور کے پوتے ہارون الرشید خلیفہ بنے تب تک بغداد شہر کی آبادی دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی تھی۔

بغداد شہر ہی نہیں عباسی خلافت بھی ہارون الرشید کے خلیفہ بنتے تک ایک سپر پاور بن چکی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ اپنے وقت کی اکلوتی سپر پاور تھی تو بے جانا ہوگا۔ عباسی خلافت افریقہ کے مشرقی کنارے سے لیکر جنوبی ایشیاء میں سندھ کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ عباسی سلطنت کتنی بڑھی تھی اِس کا اندازہ آپ اِس بات سے لگاسکتے ہیں کہ دنیا کی آٹھ فیصد رقبے پر عباسی خلیفہ کی حکومت قائم تھی اور دنیا کے 20 فیصد لوگ عباسی سلطنت میں رہتے تھے۔

خلیفہ ہارون الرشید کو علم سے بے انتہا محبت تھی۔ فلسفہ، علم و حکمت اور شاعری سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور حکومت میں بغداد میں ایک ادارے " بیت الحکمت " (House of Wisdom) کی بنیاد رکھی۔ اِس ادارے بیت الحکمت نے ہی بعد میں مسلمانوں کو علم و حکمت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ہارون الرشید اپنے دربار میں دنیا بھر سے پڑھے لکھے لوگوں، شاعروں اور فلسفیوں کو بلایا کرتے تھے اور اُن سے گھنٹوں گفتگو کیا کرتے تھے۔ بعد میں انہی میں سے قابل لوگوں کوچُن کر بیت الحکمت میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ جلد ہی بغداد اور بیت الحکمت میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور زرتشت سمیت باقی مذاہب کے ہزاروں پڑھے لکھے لوگ جمع ہوگئے۔ یہ لوگ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر تھے اور بغداد کے لوگوں میں اپنے علم کے موتی بکھیرا کرتے تھے۔ عباسی خلفاء علم و حکمت کےمعاملے میں مذہبی رواداری کے قائل تھے۔ دنیا بھر سے کوئی بھی پڑھا لکھا انسان بغداد آکر خود کو منوا سکتا تھا چاہے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

ہارون الرشید اپنی دولت خرچ کرکے دنیا بھر سے کتابیں اور قدیم نسخے منگوایا کرتے تھے جن کے بعد میں عربی زبان میں ترجمے کئے جاتے تھے۔ ہر سال سینکڑوں اونٹوں پر لدی دنیا بھر کی کتابیں اورقدیم نسخے بغداد پہنچتے تھے۔ مسلمان تاجر دنیا بھر میں کہیں بھی جاتے تو خلیفہ کو خوش کرنے کیلئے واپسی پر کتابیں اور قدیم نسخے تحائف میں لانا کبھی نا بھولتے۔ جلد ہی بیت الحکمت میں میڈیسن، سائنس، فلکیات، فلسفہ اور ریاضی کی لاتعداد کتابیں جمع ہونا شروع ہوگئی۔ یہ کتابیں چونکہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا کرتی تھی اسلئے دنیا بھر کے اسکالرز کو بہترین معاوضے پر بیت الحکمت میں بلایا جاتا تھا اور اِن کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے کروائے جاتے تھے۔ جس کا ترجمہ بہترین ہوتا اُسے بیش بہا انعامات دیئے جاتے تھے۔ تب کے بغداد میں تراجم کی تنخواہ باقی تمام لوگوں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ پھر ان ترجمہ کی گئی کتابوں کے کئی کئی نسخے تیار کئے جاتے تھے اور انہیں عباسی خلافت کے دوسرے شہروں میں قائم لائیبریریوں میں محفوظ کروایا جاتا تھا۔

ہارون الرشید کے بعداُن کے بیٹے مامون الرشید خلیفہ بنے۔ انہیں بھی علم وتحقیق سے محبت اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ مامون الرشید دنیا بھر کے علم کو اپنے دارلخلافہ میں جمع کرلینے کیلئے اتنے بے تاب تھے کہ انہوں نے اپنے دشمن مشرقی رومن ایمپائر کے پاس ایلچی بھیج کر اُن کے کتب خانوں میں موجود کتابیں اور قدیم نسخے منگوائے۔ آپ خلیفہ مامون الرشید کی علم دوستی کا اندازہ اِس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ مامون الرشید کو شمالی ایران سے چینی اور زرتشت لٹریچر کی جو کتابیں بغدادبھیجی گئی تھی وہ سو اونٹوں پر لدی ہوئی تھی۔ بعدمیں ان کتابوں کے بیت الحکمت میں عربی زبان میں ترجمے کیے گئے۔ کیونکہ آج سے تقریباً بارہ سو سال قبل کے مسلمان بھی جانتے تھے کہ ترقی کا پہلا زینہ، پہلی سیڑھی اپنی زبان میں ہی تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے۔

پوری دنیا کے علم کو اپنی زبان مین ترجمہ کرلینے اور ساری دنیا کے اسکالرز اپنے دارالخلافہ میں اکٹھے کرنے کے نتائج جلد ہی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ یہ مسلمانوں کی علم دوستی کا ہی نتیجہ تھا کہ چند سالوں میں ہی مسلمان دنیا کے ہر علم میں پوری طرح چھا گئے۔ اسی علم کی بدولت مسلمانوں نے بعد کے وقتوں میں ایسے ریا ضی دان پیدا کئے جنہوں نے دنیا کا قطر معلوم کیا اور ناصرف قطر بلکہ ریاضی کی نئی شاخ الجبرا کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دنیا کا مکمل اور جامع نقشہ ترتیب دیا۔ مسلمانوں نے ہی فلکیات کے علم کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ میڈیکل سائنس میں تو مسلمانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہے۔

دنیا میں سب سے پہلے سرجری مسلمانوں نے کی، سرجری کے آلات مسلمانوں نے بنائے۔ پہلی سرنج، انسانی جسم میں داخل کی جانے والی سوئی تک مسلمانوں نے ایجاد کی تھی۔ دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ، دنیا کا سب سے پہلا صابن، دنیا کا سب سے پہلاکلاک، دنیا کی سب سے پہلی کافی اور دنیا کا سب سے پہلا توٹھ برش تک کی ایجاد مسلمانوں نے کی تھی۔ دنیا کی پہلی اڑنے والی مشین اور بارود کی ایجاد بھی مسلمانوں نے کی تھی۔ مسلمان علم و تحقیق میں اِس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ دنیا بھر سے کسی کو بھی اگر علم حاصل کرنا ہوتا تھا تو وہ بغداد، اسلامی اُندلس یا پھر مصر کے قاہرہ کا رُخ کیا کرتا تھا۔

آج دنیا میں رائج تمام جدید علوم چاہے اُن کاتعلق سائنس سے ہو، فلسفے سے ہو، میڈیکل سے ہو، ریاضی سے ہو یا فلکیات سے ہو، اِن تمام جدید علوم کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی تھی۔ مگر دن قسمتی یہ کہ آہستہ آہستہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے علم اور تحقیق کا راستہ ترک کرنا شروع کردیا۔ مسلمان جب تک علم وحکمت اور ریسرچ میں اپنے وسائل استعمال کرتے رہے تب تک دنیا میں چھائے رہے جیسے ہی مسلمانوں نے علم و حکمت سے منہ پھیرا تو زوال اور گمنامی اُن کا مقدر ٹھہری۔

لیکن اِس کے باوجود بھی مسلمانوں نے میڈیکل اور دیگر سائنسی علوم کے متعلق جو کتا بیں تحریر کی تھی وہ صدیوں تک یورپ میں پڑھائی جاتی رہی۔ سترھویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں کی جانب سے لکھی گئی میڈیکل پر کتابیں یورپی میڈیکل نصاب کا حصہ ہوا کرتی تھی۔

مسلمانوں نے علم و تحقیق کا سفر جہاں پر چھوڑا تھا یورپ نے وہی سے اپنےعلم و تحقیق کے سفر کا آغاز کیا۔ یورپ کی مختلف اقوام نے عربی میں لکھی گئی کتب کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا اور مسلمانوں کی جانب سے کی گئی سائنسی اور میڈیکل کی دریافتوں کو آگےبڑھانا شروع کردیا۔ آج یورپ اور امریکہ علم و تحقیق میں امام کا درجہ رکھتے ہے۔ آج نئی نئی سائنسی ایجادات اور میڈ یکل میں نئے نئے تجربات انہیں ممالک میں کئے جاتے ہیں۔

اگر قوموں کے عروج و زال کے مشاہدے کو سامنے رکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ قومیں ہمیشہ علم و تحقیق کا راستہ اپنا کر ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور ہمیشہ اپنی قومی زبان میں ہی ترقی کرتی ہے۔ آج تک کسی قوم نے غیر ملکی زبان کو اپنا کر ترقی نہیں کی اور یہی تاریخ کا سبق ہے۔ مگر ہم کبھی بھی یہ دونوں راستے اختیار نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایک ایسی قوم ہے جو کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتی۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad