Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. America, Europe Aur Israel (2)

America, Europe Aur Israel (2)

امریکہ، یورپ اور اسرائیل (2)

پہلی جنگ عظیم 1914ء سے 1918ء کے درمیان لڑی گئی تھی۔ یورپی ممالک جو تقریباً تین صدیوں سے دنیا بھر کی اقوام کا استحصال کررہے تھے، اُن کی طاقت اور سرمایہ کی بھوک اِس قدر بڑھ گئی کہ یہ ممالک آپس میں ہی گتھم گھتا ہوگئے۔ اگر آپ پہلی جنگ عظیم کی تاریخ پر نظر دوڑائے تو آپ کو صاف نظر آجائے گا کہ اس جنگ کے پیچھے اور کچھ نہیں یورپ کی وہی صدیوں پرانی ایک دوسرے کے علاقے ہتھیانے اور دوسروں پر حکمرانی کرکے اُن کے وسائل لوٹنے کی ہوس کار فرما تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں یورپ کی اسی ہوس کا شکار ہوکر چار کروڑ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے جو قوم طاقت اور دولت کے نشے میں اتنی اندھی ہوچکی ہو کہ اپنے ہی کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے تو وہ قوم کیسے مہذب اور انسانیت دوست معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے تقریباً اکیس سال بعد ہی 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیاتھا۔ یورپی اقوام ایک بار پھر سے آپس میں گتھم گتھا ہوگئی اور اُن کی انسانیت دوستی ایک بار پھر سے پوری طرح عیاں ہوگئی۔ دوسری جنگ عظیم میں ساڑھے سات کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔ ان میں سے دو کروڑ فوجی، چار کروڑ سویلین اور باقی وہ لوگ تھے جو جنگ کی صورت میں پھیلنے والی بیماری اور بھوک سے مارے گئے تھے۔ اسی دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی دنیا میں پہلی بار امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کا استعمال بھی کیا گیا۔ امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا ایک ہی جھٹکے میں اڑھائی لاکھ لوگوں کی جان لےلی تھی اور اس بم کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک جاپان میں محسوس کیے جاتے رہے تھے۔

1914ء سے لیکر 1944ء پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے لیکر دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک صرف 30 سال کے عرصے میں ہی یورپ نے ایک اندازے کے مطابق 11 سے 12 کروڑ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاتھا جن میں اکثریت اِن کے اپنے ہم وطنوں کی تھی۔ یہ کوئی ہزاروں سال پہلے کی نہیں صرف 100 سال پہلے کی بات ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمارے کچھ دوست احباب آج امریکی اور یورپی اقوام کو مہذب اور انسانیت دوست معاشرہ ثابت کرنے میں اپنا پورا زور لگاتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی تحریروں میں یوں پیش کرتے ہیں کہ جیسے مسلمان اَن پڑھ، جاہل اور وحشی ہو جبکہ حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہے جسے ہمارے لکھاری دوست دانستہ طور پر چھپالیتے ہیں۔ آپ بتائے کیا دونوں عالمی جنگوں کی وجہ مسلمان تھے؟ کیا کروڑوں لوگوں کے قتل کی وجہ مسلمان تھے؟ یقیناً اِس کا جواب نہیں میں ہے۔

ہمارے مغرب پسند دانشور آپ کو کبھی یورپی اور امریکی معاشرے کی سچائیاں اور اُن کی طرف سے کئے گئے مظالم بیان کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ وہ آپ کو بس ہمیشہ یورپ اور امریکہ کی بلند و بالا عمارتوں، وہاں کے مجسموں، پینٹنگز اور عجائبات کی قصہ گوئی کرتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔

امریکہ اور یورپی اقوام کی طرف سے دوسرے ممالک کو اپنی کالونیاں بنانے اور اُن کے وسائل لوٹنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 1950ء اور 60ء میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تیل نکل آنے کے بعد سے ہی امریکہ اور یورپی اقوام نے مشرق وسطیٰ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کردیاتھا۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک چونکہ فوجی اعتبار سے کمزور تھے اسلئے امریکہ نے اُن ممالک پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ تیل عرب ممالک کی سر زمین سے نکلتا ہے مگر اُس کا ریٹ امریکی ڈالر میں طے کیا جاتا ہے۔ عرب ممالک کے جن کی سر زمین سے وہ تیل نکلتا ہے وہ اپنی مرضی سے اور اپنی کرنسی میں اُس کا ریٹ تک مقرر نہیں کرسکتے اور جو کوئی بھی امریکہ یا امریکی ڈالر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اس کا حشر عراق، شام اور لیبیا جیسا کیاجاتا ہے۔

نیٹو (NATO) یورپین ملکوں کا فوجی اتحاد ہے جس میں آج کی تاریخ میں 32ممالک شامل ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے پوری دنیا میں عراقی ایٹمی ہتھیاروں کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عراق پر حملے کا جواز فراہم کیا اور امریکہ نے نیٹوکے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کردیا۔ پورے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ لاکھوں لوگوں کو قتل کیا گیا اور اَن گنت لوگوں کو عراق چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکہ اور نیٹو نے مل کر عراق کے تیل اور قدرتی وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔

یہی کچھ امریکہ اور نیٹو نے مل کر لیبیا میں کیا۔ لیبیا کا صدر معمر قذافی تیل کو امریکی ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی میں بیچنے کی باتیں کیا کرتا تھا۔ آج لیبیا کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ لیبیا کے تیل اور قدرتی وسائل کو لوٹ کر وہاں بھی اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ یہی کچھ شام اور افغانستان میں کیا گیا۔ ایٹمی حملے کے سِوا کونسے ایسے ہتھیار اور بم تھے جو عرب ممالک اور افغانستان میں استعمال نہیں کئے گئے۔ نئے نئے ہتھیار اور بم بنائے جاتے تھے اور انہیں عرب ممالک اور افغانستان میں ٹیسٹ کیا جاتا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں MOB(مدر آف آل بمب) تک استعمال کیا جوکہ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد سب سے بڑا بم تھا۔ اتنا کچھ جاننے کے بعد بھی اگر کوئی امریکہ اور یورپی اقوام کو انسانیت دوست کہتا ہے تو اس کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

اسرائیل کے قائم کرنے کی بنیاد جنگ عظیم اول کے بعدہی رکھ دی گئی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرئیل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اسرائیلی بھی چونکہ یورپ اور امریکہ سے ہی ہجرت کرکے فلسطین آکر آباد ہوئے تھے اسلئے انہوں نے بھی امریکی اور یورپی اقوام کی پیروی کرتے ہوئے فلسطینیوں کو اُن کی سرزمین سے نکال کر اُن کی زمینیں ہڑپ کرنا شروع کردی اور اُن کے مکانوں اور کھیتوں پر قبضے کرکے اُن کو دنیا بھر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا۔ امریکی اور یورپی اقوام نے بھی اسرائیلیوں کے اس اقدام کی کھل کر حمایت کی، نا صرف حمایت بلکہ اسلحے اور سرمائے سے اُن کی ہرممکن مدد بھی کی۔ حد یہاں تک کہ امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کردیتا ہے۔

حالیہ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں اسرائیل نے پنتالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کردیا ہے اور غزہ کی کوئی عمارت اور گھر ایسا نہیں ہے کہ جس پر بم نا برسائے گئے ہو۔ ایک انسانی بحران ہے جو غزہ میں سر اٹھا چکاہے مگر اس کے باوجود یورپی اقوام اور امریکہ کے سربراہان اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور نا صرف کھڑے ہیں بلکہ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ٹویٹر پر "We Stans with Israel" کی مہم بھی چلاتے ہیں۔

ہمارے دانشور ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت ہے وہاں لوگوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ برطانیہ کے عراق پر حملے خلاف دس لاکھ لوگوں نے لندن میں احتجاج کیا تھا مگر اس کے باوجود برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کردیا۔ اب بھی اسرائیل کے مظالم کے خلاف یورپی عوام کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج کیا مگر اس کے باوجود بھی امریکہ اور یورپ اسرائیل کی اسلحے کے ساتھ مدد کر رہے ہیں۔

اسرائیل کو ننانوے فیصد اسلحہ اور امداد یورپ اور امریکہ سے ملتی ہے۔ حالیہ حماس کے ساتھ کشیدگی میں امریکہ نے اسرائیل کو 115ارب ڈالر کی فوری اسلحہ کی امداد دی تھی۔ اگر یہ ممالک صرف اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کردیں تو غزہ کی جنگ رُک جائے گی مگر یہ ممالک کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ اقوام خود صدیوں سے دوسروں کے وسائل کو لوٹ رہی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور اسرائیل معصوم لوگوں کے وسائل لوٹنے کیلئے خون کی ندیاں بہاتے رہیں گے اور ہمارے دانشور انہیں مہذب، انسانیت دوست اور پڑھا لکھا معاشرہ لکھتے رہیں گے۔

(اختتام)

Check Also

Adab

By Idrees Azad