Alien
ایلین
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے 7 فروری 2023ء کو ترکی اور شام کی سرحد پر 7.8 اسکیل کا ایک خطرناک زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اِس زلزلے کی صورت میں دونوں ملکوں یعنی ترکی اور شام میں تقریباً 60,000 کے قریب لوگ مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ لا پتا ہوگئے، سینکڑوں عمارتیں تباہ ہوگئی اور اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ کئی دنوں تک یہ زلزلہ سوشل میڈیا اور میں اسٹریم میڈیا پر چھایا رہا۔ اس زلزلے کے حوالے سے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ انہی میں سے ایک ویڈیو تھی جوکہ بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ زلزلے سے ٹھیک پہلے اُس علاقے میں موجود پرندے غول در غول کی شکل میں آسمان پر نمو دار ہوئے اور چہچہاتے ہوئے مختلف آوازیں نکالتے ہوئے وہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔
شاید میری طرح آپ کیلئے بھی یہ بات حیرانگی کا باعث ہوگی کہ پرندوں کو زلزلے کی پیشگی اطلاع کیسے مل گئی۔ اُن کے اندر ایسا کونسا " ارلی وارننگ سسٹم " لگا ہوا تھا کہ جس نے انہیں قدرتی آفت کے آنے سے پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے پرندے متاثرہ علاقہ زلزلہ آنے سے پہلے ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ بات صرف پرندوں تک ہی محدود ہی نہیں بلکہ جانور بھی اس میں شامل ہیں۔
2004ء میں انڈونیشیاء میں زیر سمندر 9.1 سکیل کا زلزلہ آیا تھا جو کہ بعد میں سونامی طوفان کا باعث بنا۔ اس طوفان سے بحر ہند کی ساحلی پٹی پر موجود درجن بھر کے قریب ممالک متاثر ہوئے، جس میں لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انسان کے بنائے ہوئے تمام زلزلہ اور طوفان کی پیشگی اطلاع دینے والے آلات فیل ہوگئے، کوئی ایک سسٹم بھی اس زلزلہ اور طوفان کا پتا نہیں لگا سکا۔ انسان کا بنایا ہوا پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم بری طرح فیل ہوگیا مگر حیران کُن طور پر اُس علاقے میں موجود تمام جانوروں نے سونامی سے ٹھیک پہلے اس طوفان کو محسوس کر لیا تھا اور نہ صرف محسوس بلکہ وہ اُس علاقے سے بھاگ جانے کی کوشش کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
عینی شاہدین کے مطابق طوفان سے ٹھیک پہلے ہاتھیوں کے غول نے کسی اونچے مقام کی طرف بھاگنا شروع کردیا، پرندوں نے نشیبی علاقوں میں موجود اپنے گھونسلوں کو چھوڑدیا اور کتوں نے گھروں سے باہر جانے سے انکار کردیا۔ ساحل سمندر پر موجود بھینسوں نے سمندر کی طرف دیکھ کر عجیب حرکات شروع کردی۔ سائنسدان آج اس بات پر متفق ہے کہ جانوروں میں ایسی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ قدرتی آفات کے خطرے کو وقت سے پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں۔ بلی، چوہے اور بکریاں تک اس خطرے کو بھانپ کر محفوظ جگہ منتقل ہونے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ سانپ بھی زلزلے کو بھانپ کر اپنی بِل سے باہر آجاتا ہے چاہے موسم کتنا ہی گرم یا سرد کیوں نہ ہو۔
اب یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام جانور اور پرندے قدرتی آفات کے خطرے کو وقت سے پہلے بھانپ لیتے ہیں تو انسان آج تک اِن خطرات کو بھانپ سکنے میں ناکام کیوں ہے۔ کیوں ہر سال لاکھوں نہیں تو ہزاروں انسان زلزلوں، طوفانوں اور دوسری قدرتی آفات کی نظر ہو جاتے ہیں۔ تو اس کا بہت ہی سادہ اور آسان سا جواب یہ ہے کہ انسان اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ انسان کسی اور دنیا، کسی اور سیارے کی مخلوق تھی کہ جسے زمین پر اتارا گیا۔ ایک ایسی زمین کہ جو چاروں طرف سے پانی میں گھری ہوئی ہے، ایسی زمین جو انسان کی آمد کے وقت خطرناک جانوروں سے بھری ہوئی تھی۔ جہاں سے انسان آیا ہے، جس مقام یا جگہ سے اِسے زمین پر بھیجا گیا ہے وہاں قدرتی آفات کا تصور سِرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اسی لئے انسان میں بھی قدرتی آفات کو سینس کرنے کا سسٹم موجود نہیں ہے۔ چونکہ پرندے اور جانور انسان سے کروڑوں سال پہلے کے اس دنیا میں موجود ہے اور انہیں اسی دنیا میں رہنے کیلئے بنایا گیا تھا اسلئے اُن میں یہ سسٹم لگا ہوا ہے۔
انسان اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا ہے آپ اس بات کو اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے علاوہ دنیا میں موجود تمام مخلوقات کا کھانا پینا، رہن سہن، موسموں کو برداشت کرنے کی صلاحیت انسانوں سے مختلف ہے۔ دنیا میں موجود تمام مخلوقات اپنا کھانایا گوشت زمین سے ڈائریکٹ حاصل کرتے ہیں اور کھاجاتے ہیں۔ اُن کو وہ کھانا ہضم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ زمین پر اُگنے والی گھاس چَرتے ہیں، شیر، چیتا اور دوسرے گوشت خور جانور، جانوروں کا شکار کرکے جو گوشت حاصل کرتے ہیں اُسے کچا کھاتے ہیں جبکہ صرف ایک انسان ایسا ہے کہ جسے کھانا ہضم کرنے کیلئے کھانے کو پکانا پڑتا ہے، اُس میں ذائقہ پیدا کرنے کیلئے مصالحہ جات استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جہاں سے آیا ہے وہاں اُسے کھانا پکانے کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی ہوگی اور نہ ہی ہضم کرنے میں کوئی دِقت حائل ہوتی ہوگی۔ جانوروں کی خوراک بھی مخصوص ہے گائے یا بھینس گوشت نہیں کھا سکتی اور شیر یا چیتا گھاس نہیں چَر سکتا مگر انسان سبزی اور گوشت دونوں چیزوں کو استعمال میں لانے کی سکت رکھتا ہے، یہاں بھی انسان باقی مخلوقات سے مختلف ہے۔
اگر انسان ہمیشہ اِس دنیا میں رہنے کیلئے بنا ہوتا یا یہاں کی کسی مخلوق جیسے بندر سے ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا انسان کے درجے پر فائض ہوا ہوتا تو انسان باقی تمام مخلوقات سے جدا کیوں ہوتا۔ دنیا کے موسموں کو جھیلنے کیلئے جانوروں سے زیادہ انسانوں کو تگ و دو کیوں کرنا پڑتی۔ سخت سردی میں رہنے والا برفانی ریچھ ہو یا گرم موسم میں رہنے والا اونٹ کسی کو بھی موسم برداشت کرنے کیلئے گرم یا ہلکے کپڑوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر جانور ایئرکنڈیشنر اور ہیٹر کے بنا کروڑوں سالوں سے اس موسم میں سروائیو کرتا آیا ہے اور آگے بھی کرتا رہے گا۔ مگر انسان موسموں سے لڑنے اور موسموں کی شدت سے خود کو بچانے کیلئے صدیوں سے محنت کرتا آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس جگہ سے انسان کو زمین پر اتارا گیا تھا وہاں کا موسم اتنا معتدل ہوگا کہ انسان کو موسم برداشت کرنے کیلئے سخت محنت نہیں کرنی پڑتی ہوگی۔
اگر انسان دنیا میں موجود جانوروں سے ہی تعلق رکھتا ہوتا یا انہی کی جدید شکل ہوتا تو انسان اور باقی تمام مخلوقات کے ڈی این اے میں اتنا فرق کیوں ہوتا۔ صرف انسان ہی ذہین ترین مخلوق کا درجہ حاصل کیوں کرتا۔ کتے، بلی، گائے، بھینس یا باقی جانور ارتقاء کی منازل کیوں طے نا کرسکے۔ سچ یہی ہے کہ انسان اس دنیا سے تعلق رکھتا ہی نہیں ہے۔ وہ کسی اور دنیا، کسی اور سیارے یا کسی بہت ہی اعلیٰ جگہ سے تعلق رکھتا تھا کہ جہاں سے اُسے اس زمین پر بھیج دیا گیا، جہاں آکر اُس کا دل اداس رہتا ہے اور اکثر اداسی اسے گھیرے رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔
دنیا کے سبھی سائنسدان اِس بات پر متفق ہے کہ اگر ایلین یا خلائی مخلوق کبھی زمین پر آئے تو وہ ہم سے کئی گنا زیادہ ذہین ہونگے اور اُن کے پاس وہ علم ہوگا جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ جس کی بنا پر وہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں گے۔ تو کیا انسان نے اس دنیا میں آکر یہی سب کچھ نہیں کیا۔ کیا انسان نے پوری دنیا کا ایکو سسٹم ہِلاکرنہیں رکھ دیا۔ کیا انسان نے باقی تمام مخلوقات کو اپنا اسیر نہیں بنا لیا۔ کروڑوں سالوں سے ایک سسٹم کے تحت چلتی آرہی زمین کو کیا انسان اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کررہا۔ جوعلم انسان کو عطا کرکے زمین پر بھیجا گیا، کیا ویسا علم زمین پر موجود کسی اور مخلوق کے پاس بھی موجود تھا۔ جواب ہے نہیں۔ اگر دنیا میں کوئی ایلین یا خلائی مخلوق ہے تو وہ بس ہم ہی ہے۔ کیونکہ ہم اِس زمین سے تعلق ہی نہیں رکھتے، ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔