Wednesday, 03 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Riaz
  4. Youm e Takbeer, Kamyabi Ka Din (1)

Youm e Takbeer, Kamyabi Ka Din (1)

یوم تکبیر، کامیابی کا دن (1)

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جانی، مالی، سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں بننے والی نئی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ورثہ میں بہت سے وسائل و مسائل اور علاقائی تنازعات ملے وہیں پر پاکستان کو ورثہ میں اک ازلی دشمن بھارت بھی ملا۔ بھارت نے روز اول ہی سے پاکستان کے وجود کوحقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی بھارت کے ہندو انتہاء پسند رہنما و تنظیمیں"اکھنڈ بھارت" کا نعرہ بلند کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔

1947سے پاکستان کو اپنے وجود کا دفاع کرنے کے لئے متعدد جنگیں لڑنی پڑی، چاہے وہ جنگ اپنے قیام کے ٹھیک ایک سال بعد 1948ء میں پاک وبھارت جنگ کی صورت میں ہو یا پھر 1965 اور 1971کی جنگیں۔ اسکے علاوہ سیاچن اور کارگل جیسے معرکے بھی پاک بھارت تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاک بھارت ازلی دشمنی ہی کی بناء پر پاکستان کو اپنے وجود کے ٹھیک 24 سال بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نقصان اُٹھانا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر ہی بھارتی وزیراعظم نے تکبر کے انداز میں کہا تھا کہ آج بھارت نے برصغیر میں دوقومی نظریہ کو سمندر میں پھینک دیا ہے۔

بہرحال مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچ جانے والے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کو اپنی بقاء کے دفاع کے لئے اپنے ازلی دشمن بھارت سے پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہوچکے تھے۔ اکھنڈ بھارت کے نعرے اور دوقومی نظریہ کو سمندر میں پھینکنے والے بیانات دیتی ہوئی بھارتی قیادت نے اپنے جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے مئی 1974 کو (امریکی اور کینڈین پلانٹ اور مواد کو استعمال میں لاتے ہوئے) ایٹمی دھماکے کئے جسکا اصل ہدف پاکستان تھا۔ یہ وہ لمحات تھے جب پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت سے اپنی بقاء کے دفاع کے لئے بھرپور اور بروقت اقدامات اُٹھانے پر مجبورہونا پڑا۔

اگر بات کی جائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تو اسکے پس منظر میں چند تاریخی حقائق کو پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ "پاکستان اٹامک انرجی کمیشن" 1956 میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ 60 کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت "بھا بھا ایٹمی تنصیبات" میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ جنرل ایوب کی کابینہ کے کئی طاقتور وزیر ایٹمی صلاحیت کے خلاف تھے۔ وزارت خارجہ کو خفیہ اطلاع مل چکی تھی کہ بھارت اعلانیہ طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی کی مخالفت کر رہا ہے مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے پروگرام پر گامزن ہے۔

اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے 11 دسمبر 1965 کو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں، ایٹمی اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے مگر ایوب خان قائل نہ ہوسکے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد ہماری قوم نے 1971 دیکھا۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو ختم کر دیا ہے۔ اس تمام صورتحال نے آخر کار پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہوگا۔ اس میں اہم ترین کردار بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب مملکت کے حکمران کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔

20 جنوری 1972 کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئرز کی ایک میٹنگ بھٹو کی زیر صدارت ہوئی، جسے "ملتان میٹنگ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے۔ اسی دوران 1974 میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔

اسی سال یعنی 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور "کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز" کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی زیرقیادت ہونے والی انتھک کوششوں کے ثمرات پاکستان سمیت پوری دنیا نے 28مئی 1998 کی سہ پہردیکھ ہی لئے تھے۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر بھارت کو برصغیر پاک و ہند کے خطہ کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے کئے بہت سی تجاویز پیش کیں جیسا کہ پاکستان نے 1974 میں یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کو "ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ" قرار دیا جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز رد کر دی۔

1978 میں پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔ 1979 میں پاکستان نے تجویز پیش کی کہ پاکستا ن اور بھارت ایک ساتھ NPT پر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دے دیں۔ 1987 میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔

1974 کے ایٹمی دھماکوں اور اسکے بعد کے بھارتی ایٹمی عزائم کے جواب میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنائے۔ یہ اقدام اسکی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔ بھارت نے جب 1998 میں"آپریشن شکتی" کے نام سے پوکھران کے مقام پر مزید پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے گھمنڈ تھا کہ پاکستان انڈیا کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری کی تمام تر توجہ کا مرکز پاکستان بن چکا تھا، چونکہ عالمی برادری کے بہت سے اہم ممالک کی انٹیلی جنس ادارے یہ خبر رکھتے تھے کہ پاکستان بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری خصوصا امریکہ، برطانیہ و دیگر عالمی طاقتور ممالک کی ہر ممکن کوشش تھی کہ کہیں پاکستان بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کردے۔

دوسری طرف پاکستانی عوام اور حکام بھی جنگی عزائم اور علاقہ میں تھانیدار بننے کے دعوے دار بھارت کو منہ توڑ جواب دینے میں دن رات اپنی توانیاں صرف کررہے تھے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے بھارتی "دھمکی" کا جواب 28 مئی 1998ء کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے "چاغی اول" کی شکل میں دیا۔

30 مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور اسطرح پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ذولفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف کے1998 کے دور تک تمام حکمرانوں، سائنسدانوں اور پاک فوج کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ اور اسی طرح ایٹمی قوت بنانے اور پھر ان ایٹمی ہتھیاروں کو دشمن کے علاقہ تک پہنچانے کے لئے میزائل ٹیکنالوجی کو بیرون ممالک سے پاکستان تک منتقلی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔

جاری۔۔

Check Also

Gilgit Baltistan Aur Dehshat Gardi Ka Khatra

By Fakhar Alam Qureshi