Meri Adalat Meri Marzi
میری عدالت میری مرضی
ریاست پاکستان کی بدقسمتی رہی جہاں انصاف کے نام پر سرعام کھلواڑ کئے جاتے رہے۔ ایوانِ عدل میں براجمان منصفوں نے من مرضی آئین و قانون کی تشریحات جاری کیں۔ غیر آئینی و غاصب حکمرانوں کو حقِ حکمرانی عطا کرنا ہو یا پھرعوامی نمائندوں کو پھانسی و پابند سلاسل یا اقتدار سے ہٹانا ہو، ہماری عدلیہ میں براجمان انصاف کے رکھوالے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ عدل و انصاف کی مسند پر جسٹس منیر، جسٹس مشتاق حسین، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس بندیال ایسے ایسے نگینوں کو براجمان دیکھا گیا جنہوں نے طاقتوروں کے اشاروں، اپنے پیاروں اور یاروں کی محبت میں آئین و قانونی کی دھجیاں اُڑائیں۔
جسٹس منیر سے شروع کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ جسٹس عمر عطا بندیال تک پہنچتا ہے۔ جو صرف یہی سمجھتے رہے کہ میری عدالت میری مرضی۔ جنکے نزدیک انکے فیصلے ہی آئین و قانون ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید صدارتی ریفرنس فیصلہ چیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ کیسے ہمارے منصفوں نے طاقتور غیر آئینی حکمران کے ایماء پر پاکستان کے مقبول ترین عوامی لیڈر کو موت کی وادی تک پہنچا یا۔
اقامہ اور غیر وصول شدہ تنخواہ کا الزام لگا کر نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس نے نکلوادیا گیا۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ایک پوڈ کاسٹ میں پانامہ فیصلے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں، انکا کہنا تھا کہ پورے مقدمہ میں اقامہ کا ذکر ہی نہیں تھااور خیالی تنخواہ کی بناء پر تاحیات نااہل قرار دے دیا گیااور حد تو یہ تھی کہ ملزم نواز شریف کو اقامہ کی صفائی کا موقع بھی فراہم نہ کیا گیا۔ چونکہ مسئلہ صرف یہی تھا کہ میری عدالت میری مرضی۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی فیصلوں سے اختلاف رکھنا و تنقید کرنا ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے مگریہ طے شدہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے صندوقوں میں بند فیض آباد دھرنا نظر ثانی، جسٹس شوکت صدیقی، ذوالفقار علی بھٹو شہید ایسے کئی زیر التوا مقدمات کو کورٹ روم نمبر ایک کی زینت بنایا اور آئین و قانون کے منافی فیصلوں کو کالعدم قرار دلواکر یہ ثابت کیا کہ اک منصف کا کام صرف اور صرف آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنا ہے ناکہ کسی طاقتور حلقے، سیاسی، سماجی، معاشرتی دباؤ میں آکر فیصلہ کرنا۔
بظاہر جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلوں کی زد میں پاکستان تحریک انصاف آرہی ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ عدالتی فیصلے آئین و قانون کی منشاء کے مطابق ہیں یا پھر کسی سیاسی جماعت کی پسند یا ناپسند کے مطابق۔ ابھی حال ہی میں آرٹیکل63-Aکی نظرثانی درخواست پر پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر 17مئی 2022 کے فیصلے کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ آئین کی من مرضی تشریح کرنے والے منصفوں کی آئین پاکستان سے ناآشنائی کو بے نقاب کیا۔
یاد رہے پاکستان بھر کی وکلاء تنظیموں نے عدالتی رائے کو آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا تھا یہی وجہ تھی کہ نظرثانی کی درخواست کسی سیاسی جماعت کی بجائے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ مگر ہمارے منصفوں نے عرصہ دراز تک نظر ثانی درخواست پر نظر کرم کرنے کی ہمت نہ فرمائی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم بینچ کے فیصلے کو پی ٹی آئی کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا مئی 2022عدالت میں منصفوں کے روپ میں براجمانوں نے فیصلہ آئین کے مطابق دیا تھا؟ اسکا سیدھا سیدھا جواب ہے کہ فیصلہ بالکل آئین کے برخلاف تھا۔
مئی 2022میں فیصلہ دینے والے منصفوں کی جانب سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے وزرائے اعلی کے خلاف عدم اعتماد کاروائی کے موقع پر علیحدہ علیحدہ اُصولوں نے منصفوں کے کردار کو عیاں کردیا تھا۔ جب حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کو ختم کرنا مقصود تھا تو آرٹیکل 63-Aکی من مرضی تشریح جاری فرما دی اور جب پرویز الہی کی وزارت اعلی کو بچانا تھا تو بالکل تین سو ساٹھ ڈگری زاویہ سے مختلف تشریح فرما دی۔ بات یہی نہیں رکی، حال ہی میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کی بابت مقدمہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز فیصلے نے ثاقب نثار و عمر عطا بندیال کورٹ کی یاد پھر سے تازہ کردی۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 میں واضح طور پر درج ہے کہ قومی و صو بائی اسمبلی میں منتخب ہونے والے آزاد اُمیدار کو گزٹ میں کامیابی نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے تین دن کے اندر اندر کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت ہے بصورت دیگر وہ ہمیشہ کے لئے آزاد رکن اسمبلی ہی قرار پائے گا۔ مگر قربان جائیں اکثریتی ججز کے فیصلہ نے آئین کے برعکس آزاد منتخب امیدواران کو پندرہ دن کی سہولت عطا فرمادی۔ یعنی جب آئین تین دن سے زائد کی اجازت نہیں دیتا تو ججز کس قانون و قاعدے کے تحت پی ٹی آئی کے مبینہ آزاد امیدوران کو یہ سہولت فراہم کررہے ہیں؟
الیکشن کمیشن کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو بظاہر غیر فعال کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن تمام افعال آئین پاکستان میں مذکور آرٹیکلز اور پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین خصوصا الیکشن ایکٹ، 2017 کے تابع سرانجام دینے کے لئے بااختیارادارہ ہے مگر جس طرح کا فیصلہ صادر ہوا ہے یہ آئین کو پارلیمنٹ کی بجائے ججز کے ہاتھوں دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اکثریتی بینچ کا فیصلہ اگر واقعی آئین و قانون کے مطابق ہوتا تو اب تک الیکشن کمیشن فیصلہ پر عمل درآمد کرچکا ہوتا۔ ہم پاکستانیوں کو سمجھنا ہوگا کہ ججز کا کام صرف اور صرف آئین و قانون کے تابع مقدمات کے فیصلے جاری کرنا ہے ناکہ ڈیم فنڈ کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانا۔
اللہ کرے کہ عدلیہ کو بابا رحمتے جیسے ڈرامہ بازوں کی بجائے ہمیشہ آئین و قانون کی پاسداری کرنے والے منصف نصیب ہوں۔