Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Raiyd Khan
  4. Saudia, Iran Proxy War Aur Masla Falasteen

Saudia, Iran Proxy War Aur Masla Falasteen

سعودیہ، ایران پراکسی وار اور مسئلہ فلسطین

اسرائیل اور حماس کے درمیان قطر کی ثالثی میں چار روزہ "عارضی جنگ بندی" کے معاہدے کے بعد (جس میں دو روز کی توسیع ہوگئی ہے) سے مشرقِ وسطیٰ اور بالخصوص غزہ کچھ سنبھلنے کی طرف گامزن ہے اور فلسطینیوں کی امداد کے لیے کئی تنظیمیں سر گرم ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت 50 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، 4 روز تک کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوگا اور اسرائیل مزید امداد غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے گا۔ اب جبکہ غزہ میں کسی حد تک امن بحال ہوا ہے تو یہ بہتر صورت ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ کا جائزہ لیا جائے اور اس تنازعہ کو سمجھنے کی سعی کی جائے۔

مسلمان اور عیسائی مفکرین اور مذہبی پیشواؤں بالخصوص پاکستانی مذہبی طبقہ کی جانب سے اس جنگ کو "آخری وقت" کی نشانی قرار دیا جارہاہے۔ اور کئی"یوٹوب چینلز" پر عالمی دجالیت کے خلاف منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور امت مسلمہ کے چوٹی کے "دانشور" اسرائیل اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ البتہ، ان دانشوروں کی "دانش" پر نکتہ چینی کرنے کی ہماری قطعاً مجال نہیں، اسی لیے اس قضیہ کو یہیں سمات، کیا جاتا ہے۔ اور اصل مسئلہ کی جانب دوبارہ توجہ مبذول کی جاتی ہے۔

بہرحال، 7 اکتوبر 2023 کو حماس، جو ایک فلسطینی سنی تنظیم ہے، نے اسرائیل پر حملہ کردیا اور یوں مشرق وسطیٰ اور بالخصوص غزہ ایک شدید "بحران" کی گرفت میں جاپھنسا۔ دنیا کی نظریں روس اور یوکرین جنگ سے ہٹ کر مشرق وسطیٰ پر جم گئیں، سعودیہ عرب اور اس کے ولی عہد محمد بن سلمان جو اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے در پر تھے انہیں زور دار دھچکا لگا اور کچھ سیاسی مبصرین کے نزدیک ان کا "نئے مشرقِ وسطیٰ" کا پلان عارضی طور پر سرد پڑتا دکھائی دے رہاہے۔ البتہ، کئی تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ حماس نے 7 اکتوبر کو "اچانک حملہ" ایران کے آشرباد اور اشارے سے کیا تھا۔

اس "تجزیے" میں کس قدر سچائی ہے اس کا اندازہ کچھ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس حملے سے حماس کو یا فلسطین کی جہد آزادی کو فائدہ پہنچا ہو یا نہیں پہنچا ہو؟ لیکن ایران کے حریف سعودیہ عرب کو اپنے "سفارتی و خارجی مقاصد" کا حصول نہیں ہوسکا ہے جبکہ خطے میں ایران کا بطور فلسطینی المیہ کے چیمپئین کا رول اب بھی برقرار ہے اور ایرانی ریاست کو درپیش سیاسی و سماجی بحران (جو ماہسا امینی کے قتل سے شدت اختیار کرگئے) کو ٹالنے کے لیے ایک بیانیہ کا سہارا مل گیا ہے۔ یعنی فلسطین کی آڑمیں ایران نے اپنے بحران کو ٹالنے کا بھر پور اعادہ کرلیا ہے اور وہ مستقل ریاست مخالف بیانیہ کو "صیہونی اور اسلام دشمن" کا لیبل چسپاں کرکے دبا رہا ہے۔

ایران ایک بحران کی زد میں ہے جبکہ یہی حال کچھ اسرائیل کا بھی ہے کہ وہاں کی نیتن یاہو سرکار اپنی حکومت بچانے کے لیے اور اسرائیل کو درپیش سیاسی و عدالتی بحران ٹالنے اور عوام میں سرکار مخالف نظریات کو دبانے کے لیے حماس کے خلاف جنگ کا سہارا لے رہی ہے۔ اس حوالے سے مشہور اسرائیلی مورخ یوول نوح حراری کے "دی گارجین" میں شائع اسرائیلی سیاسی بحران کے حوالے سے مضامین کا مطالعہ مفید ہے۔ وہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں بتاتے ہیں کہ کس طرح نیتن یاہو اپنی "شخصی آمریت" کے قیام کے لیے عدالت اور پارلیمنٹ کو استعمال کررہے ہیں اور کیسے یہ عمل اسرائیل میں جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے دونوں حریف ممالک کو شدید قسم کے بحران کا سامنا ہے اور ایسے میں ملک کی مقتدرہ فلسطین المیہ کا استعمال کرکے اپنے اپنے ملکوں میں"پوائنٹ اسکورنگ" میں مشغول ہے اور انہیں ماسوائے زبانی جمع خرچ کے مسئلہ فلسطین کو سلجھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایران اپنی مذہبی حکومت کو بچانے کے لیے (جس کی اکثریتی نوجوان آبادی مخالف ہے) اور اسرائیل جو اپنے ملک میں آباد "یوٹوپیائی ذہنیت" کی عوام کو خوش کرنے کی غرض سے انسانی جانوں کے ضیاع جیسے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کررہی ہے۔ اس پر مزید المیہ یہ ہے کہ سیاسی مبصرین محض سنسنی پھیلانے کے لیے اور شاید اپنی ویور شپ بڑھانے کی خاطر "بیانیوں کے تصادم" کو "مذہبی جنگ" کا نام دے رہے ہیں جبکہ جن کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہوا وہ محض اپنے معاملات سیدھے کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح فریقِ دوئم جو اس جنگ کو"بقاء کی جنگ" قرار دیکر طول دے رہا ہے، دانستاً معصوموں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے۔

جبکہ، اس جنگ میں جو فضول پس رہے ہیں یعنی معصوم فلسطینی اور اسرائیلی، عالمی طاقتیں انہیں ملحوظ خاطر نہیں رکھتی ہیں۔ البتہ، غیر جانبدار ادارے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے پریشان ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو تمام فلسطینیوں کو دہشت گرد اور کچھ تمام اسرائیلیوں کو صیہونی دجال قرار دے رہے ہیں۔ اس قتل و غارت گری کو "انسانیت کا بحران" قرار دیے جانے کے باوجود بھی کچھ لوگ ہیں جو اس جنگ سے منافع کما رہے ہیں۔ ان میں سر فہرست اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں جو محض اسرائیل اور حماس کو اسلحہ فراہم کرکے اربوں ڈالرز چھاپ رہی ہیں۔

بہرکیف، فلسطین کا المیہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک خطے کی اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو پس پشت رکھ کر فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ یہ بات اب ہمیں یاد کرلینی چاہیے کہ فلسطین المیہ کا حل کسی بھی صورت میں عسکری نہیں ہے۔ جنگ محض مزید جنگ کو بڑھاوا دیتی ہے اور غزہ مزید خون ریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

فلسطین المیہ کا واحد حل سیاسی ہے جس کے لیے دونوں فریق کو مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے اور تشدد پسندی کو خیرباد کہہ کر جمہوری جدوجہد کو فروغ دینا ہوگا اور غیر عسکری لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کیونکہ اس کے علاوہ کسی بھی راستے کی منزل فلسطین کی آزادی ہر گز نہیں ہوسکتی۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ فریقین جذباتیت پسندی میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ انہیں معصوموں کے قتل کی بالکل پرواہ نہیں انہیں محض اپنے مقصد کا حصول اور اپنا مفاد عزیز ہے۔

آج (29 نومبر) اقوام متحدہ کے تحت فلسطین یکجہتی دن منایا جائے گا لیکن اقوام متحدہ کو محض دن منانے کے بجائے کچھ ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے، بصورت دیگر ممالک کے اس اتحاد کا حال بھی کچھ "لیگ آف نیشنز" جیسا ہی ہوجائے گا جو ہر گز انسانیت کے مستقبل کے لیے سودمند نہیں ہے۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad