1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Raheel
  4. Mamnua Funding Case

Mamnua Funding Case

ممنوعہ فنڈنگ کیس

پاکستان تحریک انصاف کے بانی کارکن اکبر ایس بابر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ 1996 میں جب پارٹی بنی تب یہ پارٹی میں شامل ہوئے۔ پارٹی نے تحریک انصاف بلوچستان کا صدر بنا دیا۔ بے سروسامانی کے عالم میں پارٹی کا کام شروع کیا۔ بلوچستان میں عمران خان کو مدعو کیا اور وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کا کامیاب جلسہ کروا دیا۔ پارٹی نے اسلام آباد میں ایک چھوٹے سے گھر میں دفتر بنایا اور اکبر ایس بابر بھی وہاں پر اپنی ایک پرانی سی کار پر آتے اور کام کرتے۔

اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ میں گھر سے دفتر آتے ہوئے راستے سے عمران خان کے گھر سے آتا ہوا آتا اور اپنے ساتھ انہیں بھی دفتر لاتا اور واپسی پر انہیں ان کے گھر چھوڑتا تھا۔ 2002 میں اکبر ایس بابر کو پارٹی نے تحریک انصاف کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات بنا دیا۔ 2011 تک وہ پارٹی کے ساتھ کام کرتے رہے اور تب تک ان کی پارٹی صرف ایک دو نشستوں تک محدود رہی۔ 2011 کے بعد اکبر ایس بابر کو شک ہوا کہ ہماری پارٹی کو بیرونی فنڈنگ ہو رہی ہے۔

اکبر ایس بابر نے پارٹی اجلاسوں میں اس فنڈنگ کی بابت پوچھنا شروع کر دیا لیکن عمران خان صاحب نے اس کے کسی سوال کا جواب دینا گوارا نہیں کیا۔ 2014 تک اکبر ایس بابر شور مچاتا رہا کہ مجھے پارٹی فنڈنگ کا حساب دیا جائے یا اس معاملے پر جسٹس وجیہہ الدین جو پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء تھے ان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے لیکن عمران خان صاحب اکبر ایس بابر کی اس چیخ و پکار کو مسلسل اپنی رعونت کی نذر کرتے رہے۔

2014 کو ہر پارٹی محاذ سے مایوس ہو کر اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنی ہی پارٹی تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس دائر کر دیا۔ ریاست مدینہ کے داعی، بات بات پر حضرت عمرؓ کا عام شہری کو اپنی چادر پر جواب دہ ہونے کی مثالیں دینے والے جناب عمران خان صاحب نے اپنے ہی دیرینہ ساتھی کو ایک عام آدمی قرار دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ میں کسی عام آدمی کو اپنی پارٹی فنڈنگ کا حساب دینے کا پابند نہیں۔

اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خود کو اس پارٹی کا بانی رکن ثابت کیا اور پھر سے حساب مانگا جس پر عمران خان صاحب نے جواب دینے کی بجائے عدالت سے اسٹے لے لیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حق سماعت کو ہی چیلنج کر دیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے دو چار مرتبہ نہیں بلکہ پوری 11 عدالت میں پٹیشن دائر کی کہ الیکشن کمیشن کو میرے خلاف اس کیس کی سماعت سے روکا جائے۔

الیکشن کمیشن نے 24 مرتبہ تحریری طور پر عمران خان صاحب سے ان کی پارٹی فنڈنگ پر بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگیں جس پر موصوف نے ایک مرتبہ بھی مہیا نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بینک کو خط لکھ کر بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات منگوائیں تو اس میں 15 ایسے اکاؤنٹس سامنے آئے جو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے چھپا رکھے تھے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے اس پر اپنی رپورٹ تیار کر لی تو عمران خان صاحب پھر عدالت چلے گئے کہ دیکھیں جی انہوں نے تحقیقات تو کر لی ہیں لیکن اب ان تحقیقات کو منظر عام پر لانے سے انہیں روکا جائے۔

عمران خان صاحب 2014 سے 2017 تک مسلسل عدالت میں جاتے رہے کہ انہیں کاروائی سے ہی روکا جائے لیکن جب وہ نا رکوائی جا سکی تو پھر 2017 سے 2022 تک عدالت میں جاتے رہے کہ اب اس کو منظر عام پر آنے اور ابھی اس پر فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔ 2 اگست 2022 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ سنا دیا۔ یاد رہے اس کیس کا عنوان پہلے فارن فنڈنگ تھا لیکن بعد میں پی ٹی آئی کے وکیل انور مقصود کی درخواست پر اس کا نام ممنوعہ فنڈنگ رکھ دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی 34 غیر ملکی شہریوں اور 351 غیر ملکی کمپنیوں جن میں امریکہ کی 98 اور بھارت کی 2 کمپنیاں بھی شامل ہیں سے فنڈنگ کی تفصیلات جاری کر دیں اور ساتھ ہی تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس اور وفاقی حکومت کو پارٹی اور پارٹی سربراہ کے خلاف اقدامات کے لیے سفارشات بھیج دیں۔

ممنوعہ فنڈنگ 1962، 2002 اور 2017 کے تمام پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے تحت جرم ہے۔ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلا واسطہ یا بالواسطہ حاصل ہونے والے وہ فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت یا فرد، ملٹی نیشنل کمپنی یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آئیں گے۔ بیرون ممالک سے صرف وہ پاکستانی چندہ بھیج سکتے ہیں جو صرف پاکستانی شہریت کے حامل ہوں۔

ہر سال گوشوارے جمع کرواتے وقت پارٹی کا سربراہ اپنی پارٹی کی تمام فنڈنگ اس کے ذرائع اور اس کے استعمال کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہے جو کہ ہر پارٹی کرواتی بھی ہے۔ اس کے ساتھ پارٹی سربراہ یہ بیان حلفی بھی جمع کرواتا ہے کہ اس کی جماعت نے کسی قسم کی کوئی ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈنگ حاصل نہیں کی۔ عمران خان صاحب مسلسل کئی سال یہ بیان حلفی جمع کرواتے رہے کہ ان کی جماعت نے کسی قسم کی کوئی ممنوعہ فنڈنگ حاصل نہیں کی۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے اس بیان حلفی کو بھی جھوٹا قرار دیا ہے۔

نواز شریف نے اپنے گوشوارے میں اپنے ہی بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ ظاہر نہیں کی تھی اور یہ تنخواہ وصول نہیں کی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نا اترنے پر انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا جبکہ یہاں معاملہ اس سے بھی سنگین ہے کہ ایک پارٹی کا سربراہ فنڈز وصول کرنے کے باوجود کئی سال جھوٹا بیان حلفی جمع کرواتا رہا۔

نونہالان انقلاب کا اب تازہ کلام یہ ہے کہ باقی پارٹیوں کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ بھی آنا چاہئے جبکہ یہ بالکل معقول بات ہے کہ دوسری پارٹیوں کی بھی اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوتی ہے تو ان کا بھی فیصلہ آنا چاہئے۔ ممنوعہ فنڈنگ پر عمران خان کے خلاف آنے والے فیصلے نے عمران خان کی سیاست کو اخلاقی طور پر بہت دھچکا لگایا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ اور جھوٹے بیان حلفی جمع کروانے پر وفاقی حکومت عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اب اس جرم کی سزا کیا ہو گی اس پر سب کی نظریں عدالت پر لگی ہوئی ہیں۔

Check Also

Madawa Kon Kare Ga?

By Dr. Ijaz Ahmad