Gham Ziada Hain Lifafe Mein Nahi Ayen Ge
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
ملک عزیز پاکستان کا تقریباً 70 فیصد علاقہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ ساڑھے تین کروڑ لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک ہزار سے ذائد اموات ہو چکی ہیں۔ پندرہ سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ لوگوں کی ساری ساری زندگی کی کمائی پانی میں بہہ چکی ہے۔ درجنوں دور دراز کے شہروں کی خاک چھان کر ساری زندگی کی کمائی سے بنائے جانے والے گھر سیلاب برد ہو گئے۔
کروڑوں روپے کے جانور پانی میں بہہ گئے اور باقی بیماریوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے علاقے اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہ المناک مناظر ابھی بھی آنکھوں سے نہیں ہٹتے کہ جس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے لاشے کیچڑ میں لت پت پڑے تھے، لوگ دوسروں کی آنکھوں کے سامنے زندہ بہہ رہے تھے۔
سوات میں پانی نے وہاں کا سارا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔ پل ٹوٹ گئے، سڑکیں بہہ گئی، درخت تنکوں کی طرح پانی میں تیر رہے تھے، بڑے بڑے کئی منزلہ ہوٹل ڈبیا کی طرح پانی کے ساتھ بہہ رہے تھے۔ ان قیامت خیز مناظر نے دل رنجیدہ کر دیا ہے۔ مقتدر طبقہ اس کو خدا کی ناراضگی اور قوم پر عذاب قرار دے کر اپنی غفلتوں، نالائقیوں، غلط فیصلوں اور غلط پالیسیوں پر مکمل پردہ ڈال چکا ہے۔
یقینا یہ مشیت الہی ہے اور اسی کریم رب کے فیصلے ہیں۔ لیکن سیلاب میں متاثر ہونے والی غریب عوام سے رب کے ناراض ہونے کی سند مہیا کرنے والوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ یہ فیصلے صادر فرماتے پھریں؟ غربت و افلاس کی چکی میں پستی اور تنگدستی کی زندگی گزارتی عوام سے اگر رب ناراض ہے تو جو ایلیٹ کلاس طبقہ ہے، جو اس غریبوں کا خون چوسنے والے ہیں۔
جو ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والے ہیں، جو طاقت، دولت اور شہرت کے نشے میں بدمست ہاتھی بنے ہوئے ہیں، جو اسی غریب قوم کے سارے وسائل پر ظالمانہ طریقے سے قابض ہیں۔ ان کو اس سیلاب سے کوئی نقصان نہیں پہنچا، کیا ان سے رب راضی ہے؟ دنیا دارالامتحان ہے، اس میں انسان کو بھیج کر اللہ پاک نے اختیارات تفویض کیے ہیں۔ اس نے باقی معاملات کو اپنی حکمت و بصیرت اور عقل سے بھی نمٹانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اونٹ کو گرہ لگا کر باندھ کر اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیا مزید ڈیم نا بنانے کا قصور وار بھی ہم ان کو ٹھہرائیں گے کہ اس وجہ سے بھی ان سے اللہ ناراض ہے؟
پاکستان بننے کے 75 سال بعد بھی ہمارا نہری سسٹم وہی چل رہا ہے، جو ہمیں انگریز دے کر گیا۔
کیا اس بدترین انتظامی غفلت پر بھی اسی غریب عوام سے رب ناراض ہے؟
اگر نہری نظام کو بہتر کر دیا جاتا تو پاکستان کی زراعت یوں زوال پزیر نا ہوتی۔
زرعی رقبوں کو صفحہ ہستی مٹا کر ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانا کیا اس غریب قوم کا گناہ کبیرہ ہے؟
ملتان میں آم کے پھل دار باغات کو کاٹ کر وہاں پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی گئی ساری ملتان کی عوام چیختی رہی کہ ملتان کا یہ قدرتی حسن، قیمتی اثاثہ اور دنیا بھر میں مشہور آموں کا تحفہ دینے والے باغات کو نا کاٹیں، لیکن ان کی کس نے سنی؟ لاہور کو سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلا دیا ہے۔ جو روزانہ بجلی کی سپیڈ سے مزید پھیلتا جا رہا ہے اس میں کس کا گناہ ہے؟
المیہ یہ ہے کہ ہماری انتظامی غلطیاں ہیں۔ ہم خلاف فطرت ڈویلپمنٹ کرتے جارہے ہیں اور جب فطرت ذرا سی جنبش دیتی ہے تو ہم چلا اٹھتے ہیں۔
سوات کی وادیوں میں پانی کے قدرتی راستوں پر بڑے ہوٹلز، پارکس، ریستوران اور مکانات بنانے کی اجازت کس نے دی تھی؟ وہاں پانی کی رفتار عام دنوں میں اتنی ہوتی ہے کہ اس کی گہرائی چاہے کم ہی ہو، لیکن اس پانی کے آگے انسان نہیں ٹھہر سکتا تو عین دریائے سوات اور اس کے مضافات میں اتنے بڑے بڑے ہوٹلز اور عمارتیں بناتے وقت انتظامیہ کہاں تھی؟
ہمارے پاس معمول کے مطابق آنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی انتظام ہے اور نا معمول سے بڑھ کر آنے والے پانی ہو گزارنے کے لیے ہی کوئی انتظام ہے۔ ہم اپنی ہر نالائقی کو مشیت الہی سے جوڑ کر ستوں پی کر سو جاتے ہیں اور پھر کسی اگلے حادثے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر لیتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں میں آفات اور افتاد کی حالت میں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے۔
چاروں صوبوں کی عوام کو اپنا غلام اور ان پر اقتدار کا صرف اپنا حق سمجھنے والے ان کی مصیبت اور تکلیف میں گہری نیند سوئے نظر آتے ہیں۔ لوگ سیلاب میں بہہ گئے، بچوں کی کیچڑ میں لت پت لاشیں نکالی جارہی ہیں، لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے۔ پوری پوری بستیاں مٹ گئیں اور ہماری قومی سیاست و حکومت کےکسی لیڈر نے اس طرف کارخ کرنا گوارہ نہیں کیا۔
اور جو لیڈران ملت ہیلی کاپٹروں پر سیلاب زدہ علاقوں میں فوٹو سیشن کر آئے ہیں۔ ان کے اس دورے سے کتنے لوگوں کو ریسکیو کیا جاسکا ہے؟ کتنے لوگوں تک راشن، ادویات اور خیمے پہنچے ہیں؟ یہ دورے تو الٹے اسی لٹی پٹی قوم کے سرمائے کا مزید ضیاع ہیں۔ کاش ان علاقوں میں الیکشن ہوتے اور انہوں نے یہاں سے ووٹ لینے ہوتے تو سب وہیں ڈیرے ڈال لیتے۔
مہذب ممالک میں جتنے حقوق ایک جانور کو حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانوں کو شاید اتنے بھی میسر نہیں۔ کسی نے ہیلی کاپٹر کو رکشہ بنایا ہوتا ہے اور تین کلومیٹر سفر بھی اسی سے کیا جاتا ہے۔ ناشتے اسی سے پہنچتے ہیں تو کہیں کئی جانیں 5 گھنٹے پانی سے لڑ لڑ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ مگر ہیلی کاپٹر کو درکنار رکشہ بھی میسر نہیں آتا۔
سیلاب زدگان کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر 80 فیصد کام وہ طبقہ کر رہا ہے۔ جس کو ہماری قوم 20 فیصد ووٹ بھی نہیں دیتی اور جو 80 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ ان کی جماعتیں منظر سے بالکل غائب ہیں۔