75 Wa Youm e Azadi
75 واں یوم آزادی
14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والا ملک عزیز پاکستان آج 14 اگست 2022 کو الحمدللہ 75 برس کا ہو چکا ہے۔ 75 سال قبل طویل جدوجہد کر کے، تاریخی قربانیاں دے کر، معاشی و سیاسی استحصال سہہ کر، لاکھوں لوگوں کی جانوں کا نذرانہ دے کر، آزادی کی کئی تحریکیں چلا کر، 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد والا جبر برداشت کر کے کس طرح یہ خطہ حاصل کیا گیا آج کی نوجوان نسل شاید اس سے مکمل طور پر غافل ہو چکی ہے۔
ہوتی بھی کیوں نہیں، کیونکہ ہم اس دن کو منانے کے لیے چند گلوکار بلا کر ملی نغمے کہلوا لینے، کسی سیاسی رہنماء سے ایک آدھ تقریر کروا لینے اور بچوں سے ڈھول، باجے، بھنگڑے اور شادیانے بجوا کر اس دن کو بھرپور منانے کا فریضہ جو سر انجام دے دیتے ہیں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو اس نوجوان نسل کے سامنے پیش کریں۔ انہیں برصغیر میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ عروج اور دور حکمران سے آگاہ کریں۔
تخت سے تختے پر آ جانے کے اسباب بتائیں۔ برطانیہ کی غلامی میں چلے جانے کے بعد جو استحصال ہوا اور جن انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیلات بتائیں۔ مکمل آئینی، قانونی اور جمہوری انداز میں چلائی گئی تحریک پاکستان کے نتیجے میں ہمیں جو خطہ میسر آیا اس کی تقسیم میں بھی برطانیہ نے ہمارے ساتھ جو زیادتیاں کیں اس کو سامنے رکھیں۔ برصغیر کی غیر منصفانہ تقسیم نے آج تک دو ہمسائے ممالک کو اپنا ازلی دشمن بنا رکھا ہے اس سے آگاہ کریں۔
ہم اپنی نسل کو سمجھائیں کہ کیسے ریاست مناوادر، جوناگڑھ، کشمیر اور ریاست بہاولپور کو بھارت کی جھولی میں ڈالا گیا جس کے لیے تقسیم کے لیے طے کیے گئے تمام اصول بھی پس پشت ڈال دیے گئے۔ مسلم آبادی پر مشتمل علاقے گورداس پور کو بھارت کی جھولی میں صرف اس لیے ڈالا تاکہ بھارت کو کشمیر میں جانے کے لیے زمینی راستہ مل جائے ورنہ تو کشمیر مکمل طور پر جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔
اس کی ریلوے، اہم تجارتی شاہراہ، اس میں سے بہہ کر آنے والے نالے و دریا سب پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ واحد ریلوے سیالکوٹ سے گزرتی تھی، تجارتی شاہراہ راولپنڈی آتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے نکل کر آنے والے نالے نالہ بسنتر، نالہ ایک، نالہ ڈیک، نالہ پلکھو اور نالہ بئیں بھی نارووال اور سیالکوٹ کی طرف بہتے ہیں۔
پاکستان مکمل جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا اس کی تقسیم کا عمل بھی طاقت کے زور پر نہیں جمہوری طرز پر مکمل کرنے کا فیصلہ ہوا اور اصول طے کیے گئے لیکن اسی باؤنڈری کمیشن نے کشمیری عوام کی خواہشات کو روند کر، ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر، ان کی مذہبی اور جغرافیائی حیثیت کو پس پشت ڈال کر جب ظالمانہ فیصلہ کیا تو کشمیری اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو آج تک اپنی تین نسلیں قربان کر دینے کے بعد بھی کھڑے ہیں۔
اقوم متحدہ نے اپنی ہی پاس کی ہوئی قرار دادوں پر آج تک عمل نہیں کروایا کیا یہ اتنا سادہ معاملہ ہے؟ پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کو چلانے کے لیے آئین، قانون اور افسران کی ضرورت تھی۔ ہم نے عارضی طور پر تینوں چیزیں برطانوی نظام سے ہی مستعار لے لیں۔ انگریز کا بنایا ہوا آئین ہی نافذ کرنا پڑا کہ جب تک ہم اپنا آئین نہیں بنا لیتے یہی آئین اور قانون سے گزارہ کر لیں گے۔ افسران بھی اسی ریاست کے لے کر اپنا کام شروع کر دیا گیا۔
1956 میں جا کر ہمارا پہلا آئین تیار ہوا اور تب تک ہماری آئینی سربراہ ملکہ برطانیہ ہی رہیں۔ لیکن پہلا آئین نافذ ہونے کے بعد گورنر جنرل اور آئینی سربراہ ملکہ برطانیہ کی حیثیت ختم ہو گئی۔ آئین تو ہم نے بنا لیا لیکن قانون 1956 میں بھی ہمیں وہی نافذ کرنا پڑا جو برطانیہ نے ایک مفتوح قوم کو قابو رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ 1962 میں دوسرا آئین نافذ کر دیا گیا لیکن بدقسمتی سے قانون سازی پر توجہ پھر بھی نہیں دی گئی اور وہی 1860 اور 1861 کے قوانین کو نافذ کر دیا گیا۔
1973 میں تیسرا اور پہلا عوامی آئین تیار کیا گیا جو 1973 میں نافذ کر دیا گیا لیکن قانون پھر وہی نافذ کر کے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کر لیا۔ اس میں صرف اتنا سا اضافہ کر دیا کہ "یہی قوانین نافذالعمل رہیں گیں تاوقتیکہ متبادل قانون نا بن جائے۔ " یوں ہم ان پچھتر سالوں میں آج تک جن قوانین کے سہارے سے مملکت خداداد پاکستان کو چلا رہے ہیں وہ کسی آزاد قوم کے لیے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔
انگریز نے اپنی رعایا اور محکوم قوم کو غلام بنائے رکھنے کے لیے جو ڈھانچہ تیار کیا تھا ہم آج تک اسی کو سینے سے لگائے پھر رہے ہیں اور پھر رونا اس نظام کا روتے ہیں۔ پولیس گردی کا رونا ہر کوئی روتا ہے اور اس کے سدھرنے کی دعائیں کرتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ پولیس جس ایکٹ کے تحت کام کر رہی ہے وہ 1860 کا ایکٹ ہے جس میں مشرف دور میں معمولی سا کوئی رد و بدل ہوا تھا۔
ہماری قانون ساز اسمبلی کی اتنی شاندار کارکردگی ہے کہ وہاں ایک دوسرے کو گالم گلوچ سے کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ نیا پولیس ایکٹ ہی بنا لیں۔ اس سسٹم سے انصاف کا ملنے کا رونا تو اب روتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جو فوجداری ایکٹ نافذالعمل ہے وہ 1857 کی جنگ آزادی لڑنے والی قوم کو بغاوت کے صلے میں نتھ ڈالنے لے لیے بنایا گیا تھا جو کہ ہماری قانون ساز اسمبلی آج تک نا بدل سکی۔
پاکستان کی 80 فیصد مسائل کی وجہ ہمارا بیوروکریسی کا گھسا پٹا فرسودہ نظام ہے۔ یہ برطانیہ سے عیاشی کے لیے لائے گئے افسران کی تفریح کا سامان تھا جسے پچھتر سالوں سے ہم پوجتے جا رہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ اس سسٹم کا رونا تو سب روتے ہیں لیکن اتنی ہمت کوئی نہیں کرتا کہ ہم وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور میں بنیادی انسانی حقوق اور مہذب انسانی معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے از سر نو قانون سازی کریں۔
ہر پانچ سال بعد قومی اسمبلی کے 342 اور ہر چار سال بعد سو سال زائد سینٹرز کو صرف اس لیے ایوان میں بھیجا جاتا ہے کہ وہ قانون سازی کریں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایک دن کا خرچہ چار کروڑ سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ قوم قانون ساز اداروں کا سالانہ اربوں روپے کا خرچ برداشت کرتی ہے تاکہ قانون سازی ہوتی رہے۔ لیکن وہاں سب کچھ ہوتا ہے سوائے قانون سازی کے۔
ہماری سیاسی جماعتیں شاید ہماری نوجوان نسل کو سیاسی بیداری کا شعور دینا ہی نہیں چاہتیں تاکہ وہ ان کی بدترین کارکردگی پر اس سے سوال نا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یوم آزادی پر بھی ناچ، گانا، ڈھول، باجے، سیاسی اختلافات میں الجھانے کے لیے تقاریر تو کریں گے لیکن کہیں کوئی علمی، فکری اور سنجیدہ تقریب کا اہتمام نہیں ہو گا۔