Tajurba Kar Vs Anari
تجربہ کار ورسز اناڑی
پاکستان کے سابقہ حکمران بزنس مین تھے۔ مختلف صوبوں اور ملک میں لگاتار حکومتیں کرتے رہے۔ اس لیے ان کو تمام شعبوں میں تجربہ کار مانا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب عمران خان کو کھلاڑی ہونے کی وجہ سے سیاست اور معیشت میں اناڑی سمجھا جاتا ہے، لیکن عمران خان نے ان تجربہ کاروں کی تمام غلطیوں کا ازالہ اپنی حکومت میں انتہائی فہم و فراست سے کیا ہے۔ ن لیگ نے 2016 میں قطر کے ساتھ 15 سالہ ایل این جی کا معاہدہ کیا، جس میں دس سال کےلیے قیمت بھی مقرر کر دی گئی جو 13۔ 37 فیصد پر برینٹ تھی۔ حکومت کو 170 ملین ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ دینا پڑتا تھا۔
اس سے ملک کو بےشک نقصان ہو ا، لیکن شاہد خاقان عباسی صاحب پہ نیب میں کروڑوں کے کک بیکس کے الزامات عائد ہوئے۔ عمران خان جیسا اناڑی حکومت میں آیا تو انھوں نے اس قدر مہنگے معاہدے پہ نظرثانی کا اعلان کر دیا۔ آخر کار دانشمندوں کا معاہدہ ری شیڈول ہوا اور قطر سے دس سالہ نیا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت 10۔ 2 فیصد برینٹ مقرر کی گئی، لیٹر آف کریڈٹ بھی 170 ملین سے آدھا کر کے 84 ملین پہ طے ہوا، اور یوں 31 فیصد سستا معائدہ کر دکھایا جس سے ملک کو دس سال میں تین بلین ڈالر کا منافع ہونا ہے۔
خاقان عباسی صاحب تو اس قدر تجربہ کار تھے کہ، اینگرو گروپ کا کیمیکل ٹرمینل 27 ملین روپے یومیہ پر 15 سال کے لیے کرائے پر حاصل کیا گیا۔ جبکہ اناڑی نےپورٹ قاسم پر پہلے سے ایل پی جی کا غیر استعمال شدہ ایل پی جی ٹرمینل استوا کیا، جو صرف 30 سے 40 ملین روپے کی لاگت سے ایل این جی کی درآمد کےلیے کارآمد بن گیا۔ پیپلز پارٹی نے ترک کمپنی کارکے کے ساتھ 2009 میں رینٹل پاور پلانٹ کے ساتھ 564 ملین کا معاہدہ کیا۔ جس کو ن لیگ نے کیس کر کے افتخار چودھری کے ساتھ مل کر کینسل کروایا، اور یوں کمپنی نے عالمی عدالت میں کیس کر کے 2013 میں کیس جیت لیا جس سے پاکستان پہ 1۔ 2 بلین ڈالر کا جرمانہ ہوا۔
اس پہ راجہ پرویز اشرف کا نام، راجہ رینٹل پڑ گیا اور شک ظاہر کیا گیا کہ اس پلاننگ میں لیگی راہنما، راجہ رینٹل صاحب اور افتخار چودھری بھی کہیں نہ کہیں ملوث رہے ہوں گے۔ خیر ملک کو بڑا نقصان ہوا اور کچھ طاقتوں کو فایدہ ہو گیا۔ جب ایک اناڑی کی حکومت آئی تو اس نے کمپنی سے مزاکرات کئے، لیکن کمپنی نے کسی نئے معاہدے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کو انویسٹمنٹ سے ڈبل، جرامنے کی صورت میں مل رہے تھے۔ آخر کار وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر سے رابطہ کیا اور سفارتی پریشر کا استعمال کیا۔ انھوں نے پاکستان کی معاشی حالت کے پیشِ نظر ترک صدر کو کمپنی سے جرمانہ ختم کرنے کی سفارش کی۔
بالآخر عمران خان کی سفارتی کوششوں سے پاکستان کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، اور تجربہ کاروں کا یہ جرمانہ ایک اناڑی نے معاف کروا دیا۔ اسی طرح تجربہ کاروں نے ریکوڈک پروجیکٹ میں بی ایچ پی کے ساتھ معاہدہ کیا، جس کے تحت پاکستان کےمنافع کا صرف 25 فیصد شیئر ملنا تھا۔ ایک دفعہ پھر بات عدالت پہنچتی ہے، اور اتفاق سے یہ معاہدہ کینسل کرنے کا سہرا بھی افتخار چودھری صاحب کے سر سجتا ہے۔ معاہدے کی اس وقت کی اصلی فریق گولڈ بیرک، 2012 میں پاکستان سے کیس جیت جاتی ہے اور کیس آگے بڑھاتی ہے۔
اس کے چند سالوں بعد وہ ہرجانے کا دعویٰ دائر کرتی ہے، جو 11 بلین ڈالر کا ہوتا ہے۔ 2018 میں، ایک اناڑی کی حکومت آتی ہے تو وہ عالمی عدالت سے وقت لیتا ہے اور کیس کو مضبوط کرتا ہے۔ دلائل کی بنیاد پہ عدالت 2019 میں جرمانہ آدھا کر دیتی ہے جو چھ بلین ڈالر بنتا ہے، لیکن اناڑی تو اناڑی ہوتا ہے۔ وہ کمپنی کو دوبارہ اپروچ کرتا ہے اور آخر کار طویل مذاکرات کے بعد، نہ صرف سارا جرمانہ معاف کروا دیتا ہے بلکہ منافع کے پورے 50 فیصد شیئر کے ساتھ نیا معاہدہ بھی کر ڈالتا ہے۔
پتہ نہیں، یہ کیسا اناڑی ہے جو نہ صرف پاکستان کو بیرونی مشکلات سے نکال لیتا ہے بلکہ اپنے ملک میں پرائیویٹ کمپنیوں سے ہوئے، کئی مہنگے معاہدے ریوائز کر چکا ہے۔ جن غیر ملکی دوروں پہ تجربہ کار کروڑوں لگاتے تھے، وہاں یہ لاکھوں میں کام چلا لیتا ہے۔ پتہ نہیں، اس کا ہر دورہ تجربہ کاروں کے دوروں سے آدھی قیمت میں ہی کیوں پڑتا ہے؟ مجھے تو یہ بلکل ہی اناڑی لگتا ہے۔ اب دیکھیے نا، جو موٹروے فی کلومیٹر ن لیگ 37 کروڑ دو لاکھ میں بناتی تھی، وہی موٹروے یہ اناڑی ہر چیز مہنگی ہونے کے باجود 17 کروڑ میں فی کلومیٹر بنا رہا ہے۔ ہمیں یہ اناڑی حکمران نہیں چاہیے۔ قوم کو پھر سے تجربہ کار حاکموں کی ضرورت ہے۔