Sadarti Nizam Ki Haqeeqat (2)
صدارتی نظام کی حقیقت (2)
پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے اور اس میں ہر طرح کے تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے بہت شروع کے تجربات سے سمجھ لیا تھا کہ ہمیں پارلیمانی نظام ہی نافذ کرنا ہے۔ جب پہلی دفعہ ایوب خان نے صدارتی نظام نافذ کیا تو اس کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن ہی پارلیمانی نظام کے نفاذ کے نام پر لڑا تھا۔ اس کے بعد 1971 کے الیکشن کے بعد بھی پارلیمانی نظام کے نفاذ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کیونکہ صدارتی نظام ایک خاص طبقے کو نواز رہا تھا تاہم ملک کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کوئی لائحہ عمل نہ بن سکا۔
1973 میں تمام پارٹیوں کی مشترکہ رائے سے پارلیمانی نظام کو اپنایا گیا۔ مارشل لاء کے ادوار میں پھر سے سخت گیر صدارتی نظام نافذ رہا ہے تاہم قومی دھارے کی کسی سیاسی پارٹی کا مطالبہ صدارتی نظام نہیں رہا۔ صدارتی نظام کی صورت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو زیادہ فائدہ ہو گا لہذا اس سے باقی صوبوں میں احساس محرومی بڑھ سکتی ہے۔ ایسے میں کوئی جماعت بھی اس نظام کے حق میں نہیں ہے۔
اگر نظام بدلنا ہے تو عوام کے اندر شعور کو بیدار کرنا ہو گا۔ عوام کو اپنے نمائندے چنتے ہوئے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ جب پارلیمنٹ میں حقیقی عوامی نمائندے پہنچیں گے تو نظام خود بخود بدل جائے گا، ورنہ جو پچاس لاکھ لگا کر پہنچے گا، وہ اسے پورا کیے بغیر عوامی مفاد کو مقدم رکھنے سے تو رہا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت زیادہ اختیارات دےکر وفاق کو تقریباً بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کی کارکردگی اور وفاق کو درپیش مسائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وفاق کو مضبوط بنانا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا یہ مطلب نہیں کہ تعلیم و صحت جیسے اہم شعبے بھی صوبوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ نچلی سطح تک منتقلی بھی ایک ڈھونگ ہے کیونکہ صوبوں نے یہ اختیارات مقامی حکومتوں تک پہنچنے ہی نہیں دیے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اس بدانتظامی کی جیتی جاگتی تصویر ہے، جہاں میئر کو کچرا تک اٹھانے کے اختیارات نہ مل سکے، بالآخر وفاق کو آگے آنا پڑا۔ مقامی حکومتوں تک اختیارات کی عدم منتقلی سے مرکز کے نیچے الگ الگ مرکز بن چکے ہیں۔ اس کے علاؤہ صوبے آج بھی کل ملکی آمدنی میں سے اپنے ذرائع سے صرف دس فیصد خرچ کرتے ہیں۔
اوپر سے صوبے کا ٹیکسیشن نظام بھی کمپرومائزڈ ہے۔ یہ جی ڈی پی کا صرف 1.1 فیصد ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو دیتے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ صرف بیس فیصد ہوتا ہے، باقی بوجھ وفاق اُٹھاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک تو اختیارات کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کرنا ہے اور دوسرا صوبوں کے اختیارات کم کر کے وفاق کو حقیقی معنوں میں مضبوط بنانا ہے۔ اس کےلیے کسی الگ نظام حکومت کی چنداں ضرورت نہیں۔
صدارتی نظام کا چرچا کرنے والے ساتھ مذہب کا تڑکا لگاتے ہیں اور اسلامی صدارتی نظام کے نعرے لگاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ اسلامی نظام کا صدارتی یا پارلیمانی نظام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام نے کسی فکس نظام کی نشاندہی نہیں کی۔ اسلام تمام اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک منصفانہ نظام کا مبادلہ کرتا ہے جو فلاح، رحم، عدل و انصاف اور ترقی پسند ہو۔
پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا نعرے لگانے والی جماعتیں جب بھی اقتدار میں آئی ہیں، انھوں نے اسی نظام کو فالو کیا ہے۔ نہ تو ایم ایم اے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی صورت میں کوئی آئیڈیل نظام پیش کر سکی اور نہ ہی ماضی میں مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا کر بینظیر کے خلاف نفاذ شریعت کے نعرے لگانی والی ن لیگ وفاق میں ایسا کچھ کر پائی ہے۔ شریعت کا نفاذ انسانوں پہ ہوتا ہے۔ ریاست زبردستی لوگوں کی طرز زندگی نہیں بدل سکتی۔ اس کا کام منصفانہ نظام انصاف کی فراہمی اور متوازن معاشی نظام دینا ہے، جو قوم و ملک کے وسیع مفاد میں ہو۔ لہذا نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس وقت صدارتی نظام کی بحث فضول ہے۔ کوئی جماعت نہ تو اس نظام کے حق میں ہے اور نہ ہی قومی دھارے کی کوئی جماعت اس وقت اس نظام کو نافذ کرنے کی حالت میں ہے۔ نئے نظام کے نفاذ کےلیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کر کے عوامی ریفرنڈم بھی ایک حل ہے لیکن اس کے حق میں بھی کوئی جماعت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں ابھی تک اس موضوع پہ کوئی بحث نہیں ہوئی لہذا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ چلنے والی بحث خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
سب سے بڑے بھولے بادشاہ وہ ہیں جو ایک تیسرے نظام " اسلامی صدارتی نظام" کے راگ الاپ رہے ہیں۔ یقیناً یہ طبقہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہا ہے۔ قصہ مختصر فی الوقت موجودہ پارلیمانی نظام کے اندر خرابیوں کو دور کیا جائے اور جمہوری قدروں کو فروغ دیا جائے بصورت دیگر کوئی نظام بھی ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔