Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Russia Ukraine Kasheedgi (2)

Russia Ukraine Kasheedgi (2)

رشیا یوکرین کشیدگی (2)

صدر پیوٹن نے گزشتہ سال سے یوکرین پہ حملے کی پلاننگ کر رہے ہیں اور دنیا کو خبردار کر رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت تمام اہم ممالک کے راہنما ان سے مل چکے ہیں۔ روس یہ چاہتا کہ اسے گارنٹی دی جائے کہ نیٹو یوکرین کو ممبرشپ نہیں دے گا۔ اس کے علاؤہ وہ 1997 کے بعد نیٹو میں شامل ہونے والی ریاستوں کی وجہ سے بھی سخت خفا ہے اور نیٹو سے کوئی ایسے ممکنہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس سے یا تو ان ممالک کی نیٹو ممبرشپ ختم کی جائے یا پھر نیٹو ان کےلیے رولز میں مناسب بدلاؤ لائے۔

نیٹو کے تمام تیس ممالک کے سربراہان ان شرائط کو مسترد کر چکے ہیں اور یوکرین کے سیکورٹی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے میں صدر پیوٹن مزید ایگریسو ہوئے ہیں۔ اب اگر وہ بغیر کسی نتیجے کے پیچھے ہٹتے ہیں تو اس سے ان کی دنیا میں اور اپنے ملک میں امیج کو زبردست نقصان پہنچے گا اور یہ تاثر جائے گا کہ روس نے امریکہ و یورپ سے ڈر کر قدم پیچھے ہٹائے ہیں۔ اس کے پاس آپشن محدود ہیں۔ وہ کسی فیئر ڈیل کے چکر میں ہیں۔ اگر وہ مل جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ وہ یوکرین کے کچھ علاقوں پہ قبضہ کر لیں گے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پورے یوکرین پہ حملہ آور ہو جائیں۔

روس کے بلکل بارڈر پہ نیٹو کے اسٹونیا میں 1150، لیٹویا میں 1650، لیتھونیا میں 1100، پولینڈ میں 1060 فوجی تعینات ہیں جبکہ دوسری جانب کرائیمیا کی جانب رومانیہ میں چار ہزار جبکہ بلغاریہ میں دو سو فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ نے بلغاریہ میں دو سو، رومانیہ میں ایک ہزار، پولینڈ میں 5400 اور لیتھونیا میں پانچ سو مزید فوجی بھیجے ہیں۔ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ یہ ظاہری تعداد ہے تاہم ان میں سے کسی بھی ملک پہ کوئی حملہ کرے گا تو نیٹو کے تیس ممالک مل کر اس پہ حملہ آور ہوں گے۔ یوں روس کو اپنی سلامتی کےلیے خدشات لاحق ہیں۔

اس کے بارڈر کے ساتھ دیگر ریاستوں میں نیٹو بیٹھ چکی ہے۔ اب صرف یوکرین بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس یورپ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مشرقی یورپ میں اپنی فوجی ایکٹویٹی کم کرے بصورت دیگر سب نقصان اٹھائیں گے۔ اسی کے کاوئٹر کےلئے روس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1997 کے بعض روس کے گرد 13 ممالک نے نیٹو جوائن کی۔ روس ابھی کیوں اتنا ایگریسو ہوا۔ دراصل روس نے بکھرنے کے بعد سے ہی نیٹو کی ان حرکتوں کی مخالفت شروع کر دی تھی لیکن افغانستان کی تھکا دینے والی لڑائی کے بعد روس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی ریاست پہ حملہ آور ہو جائے۔ 2008 میں یوکرین جب نیٹو کی جانب جانے لگا تو روس نے دھمکیاں شروع کر دیں۔

اس کے بعد معاملات خراب ہوتے گئے یہاں تک کہ 2014 میں روس نے کرائمیا پہ حملہ کر دیا اور پورا کرائیمیا ہتھیا لیا۔ اس وقت ستمبر 2014 میں روس اور یوکرین کے درمیان بارہ نقاتی معائدہ طے پایا جس کو Minsk معاہدے کا نام دیا گیا جس میں سیز فائر کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی واپسی اور انسانی بنیادوں پہ باہمی امداد جیسی باتیں تھیں جن کی دونوں جانب سے کھلم کھلا خلاف وزری ہوئی۔

پھر فروری 2015 میں یورپ کی مدد سے ایک تیرہ نقاتی معاہدے پہ سائن ہوئے جس کو Minsk دوم کہا جاتا ہے جس میں سیز فائر کے ساتھ ساتھ باہنی تعلقات کی بحالی کےلیے معاہدے اور دنباس کے علاقوں کی سپیشل اسٹیٹس دینے اور ریفرنڈم کیا شقیں شامل تھیں۔ یہ ایک دفاعی اور سیاسی ڈیل تھی جس کی خلاف ورزیاں ہوتی آئی ہیں۔ روسی صدر پیوٹن کو اس بات پہ غصہ ہے کہ اس ڈیل کو پورا نہیں کیا گیا اور اس کی سیکورٹی ڈیمانڈ پہ عمل درآمد نہیں ہو پایا۔

کرونا وائرس کے دوران جب دنیا اپنے معاملات میں مصروف تھی تب آذربائجان نے آرمینیا پہ حملہ کر دیا اور اپنے علاقے واپس لے لیے۔ اس موو سے پیوٹن متاثر ہوئے۔ اس سے پہلے روس کو نئے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے کافی امیدیں تھی۔ یہ شخص ایک کامیڈین تھا جو ایک ٹی وی پروگرام میں صدر کا مزاحیہ کردار ادا کرتا تھا اور بعد ازاں 2019 کے الیکشن میں سچ مچ صدر بھی بنا۔ یہ روس سے براہ راست بات چیت اور اچھے تعلقات کا خواہاں تھا جس کا اظہار یہ الیکشن مہم میں کرتا رہا۔

روس چاہتا تھا کہ وہ روسی نواز متنازعہ علاقوں کو سپیشل اسٹیٹس دینے کے بجائے واپس یوکرین کا حصہ بنا لے اور یوکرین کو نیٹو سے دور رکھے۔ یوکرینی صدر اپنی سلامتی کے تقاضوں کے تحت دونوں باتیں نہ مان پائے جس پہ پیوٹن پیش میں آ گیا لیکن وہ اس وقت کوئی خاص قدم نہ اٹھا سکا۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی حکومت کے کچھ فیصلوں نے اس کی ہمت بندھائی مثلاً ٹرمپ نے امریکی مفاد کی خاطر یورپی یونین کو ناراض کیا۔ نئی جو بائڈن انتظامیہ نے بھی چند غلطیاں کیں مثلاً آسٹریلیا کے ساتھ نیوکلیئر سب میرین ڈیل سے فرانس کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے۔

پیوٹن امریکہ اور یورپی ممالک میں بڑھتی اس دراڑ کا بروقت فایدہ اٹھانے جا رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی بدترین شکست کے بعد امریکہ کی کمزوری واضح ہوئی ہے۔ امریکہ اب اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔ اس سے یورپی ممالک امریکہ پہ اعتماد کم کرنے لگے ہیں۔ جرمنی میں سولہ سال تک انجیلا مرکل چانسلر رہی ہیں لیکن اب اولاف شولز آ چکے ہیں جو روس سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک روس سے نیچرل گیس امپورٹ کرتے ہیں۔

فرانس میں اپریل میں الیکشن ہیں لہذا صدر میکرون روس سے پنگا لیں گے تو قیمتیں بڑھیں گے جو ان کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچائے گی۔ پیوٹن نے اس سب صورتحال کا بروقت فایدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین کی جانب پیش قدمی کی ہے۔ اللہ کرے کوئی پرامن حل نکل آئے۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani