Peoples Party Ka Long March
پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ
عمران خان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں کے دوران وہ اپنے کردار اور شخصیت کی وجہ سے ملک کے مقبول ترین لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ عالمی سطح پر جس طرح انہوں نے پاکستان کا کیس لڑا ہے اور ملکی تشخص کو اجاگر کیا ہے اس سے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے تین سالوں سے اپوزیشن کی تمام پارٹیاں تمام ممکنہ کوششوں کے باجود حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار نہیں کر سکیں۔
عمران خان کی عوامی مقبولیت اس قدر ہے کہ ان کے سامنے سارے سیاستدان بونے ہیں۔ ایک طرف عمران خان پاکستان کو آگے لے جانے کی سعی کر رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کی ٹانگیں کھینچنے میں لگی ہوئی ہیں۔ عمران خان کی وجہ سے تمام پارٹیاں عوامی مقبولیت کھو چکی ہیں اور اس وقت سب اپنے وجود کے بچاؤ کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ن لیگ تو تمام صوبوں سے آؤٹ ہو چکی ہے اور اس کے سربراہ اس وقت لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دور دور سے حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں۔
مولانا کے ساتھ دونوں بڑے پارٹیاں ہاتھ کر جاتی ہیں اور ان کی سیاست تو ویسے بھی دفن ہو چکی ہے۔ رہ سہہ کر ایک پیپلز پارٹی بچی ہے جس کے پاس صرف ایک صوبے میں حکومت ہے لیکن وہاں بھی وہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
سندھ کے حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب باقاعدہ طور پر گھبرائی ہوئی ہے۔ سندھ میں موجود تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں تین چار دہائیوں سے سندھ پہ پیپلز پارٹی کی انتظامی نااہلی کے باعث اب اس خلا کو پر کرنے میں مصروف ہیں۔ پیپلز پارٹی لگاتار مختلف جماعتوں کے دھرنوں اور احتجاج میں گھری ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی نے ایک طویل دھرنے میں پیپلز پارٹی کو بڑا دھچکا دیا جس کو ختم کروانے کےلیے پوری صوبائی انتظامیہ کو میدان میں آنا پڑا۔ ایم کیو ایم نے وزیر اعلی ہاؤس کا محاصرہ تک کیا اور لاٹھیاں اور آنسو گیس کی وجہ سے عوام میں پیپلز پارٹی کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوئی۔ پیپلز پارٹی ابھی اس نقصان سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال آگے بڑھے اور ایک دھرنا دے دیا جس کو پانچ فروری کو بڑی مشکل سے ختم کروایا گیا۔
اب پاکستان کی سب سے مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے دورہ روس سے واپسی کے بعد خود بطور وائس چیئرمین تحریک انصاف، گھوٹکی جا کر عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی باقاعدہ گھبرا چکی ہے۔
اپوزیشن اتحاد مارچ کے آخر میں احتجاج کا پلان بنا رہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی پہلے ہی لانگ مارچ کےلیے نکل آئی ہے کیونکہ وہ اس طریقے سے حکومت پہ پریشر بنا کر اپنا بچاؤ کرنا چاہتی ہے۔ سندھ کے اندر بدترین انتظامی نااہلیوں کو چھپانے کے لئے پیپلز پارٹی کے پاس اب یہی آخر آپشن ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سندھ سے لیکر پنجاب تک لانگ مارچ کرے اور اپنی رہی سہی ساکھ کو بچانے کی آخری کوشش کرے۔
پیپلز پارٹی کو سندھ اپنے ہاتھوں سے جاتا ہوا دکھ رہا ہے لہذا وہ اب ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اس لانگ مارچ میں کوئی دم نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کو ایک غیر مقبول جماعت کے چند ہزار لوگوں کے مارچ سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے استعمال کیے جانے والے یہ تمام ہتھکنڈے اپنے ووٹروں کو انگیج کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ ان کے بکھرے وجود کو بچانے کی کوششیں ہیں جو تمام جماعتیں کر رہی ہیں۔ ان تلوں میں اتنا تیل نہیں ہے کہ یہ حکومت کو گرا سکیں۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس وقت اپوزیشن جماعتیں واقعی حکومت کو گرانے کےلیے سنجیدہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کے باجود حکومت کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے پاس لے دے کر صرف مہنگائی کا آپشن بچتا ہے جبکہ عوام مہنگائی کے اصلی ذمہ دار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہی سمجھتے ہیں جنھوں نے ملک کو اربوں ڈالر کے خساروں اور قرضوں کے بوجھ تلے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے عوام لمحہ بہ لمحہ خبردار رہتی ہے۔ اس کے علاؤہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پہ ہونے والی مہنگائی اور اس کے پاکستان پہ پڑنے والے اثرات سے عوام اچھی طرح آگاہ ہے۔ جب پوری دنیا میں مہنگائی کا ایک بڑا طوفان آ چکا ہے تو پھر قوم اس کو موجودہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر ملک کو مفلوج کرنے والوں کا ساتھ کیونکر دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں حکومت کے خلاف پبلک کو باہر نکالنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ اب اپنے وجود کے بچاؤ کی آخری کوششیں ہیں۔
اپوزیشن کےلیے اس حکومت کا گرانا بہت ضروری ہے کہ کیوں جس تیزی سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس طرح وہ عالمی سطح پہ ملکی تشخص بحال کر رہے ہیں، ملک کو امریکی تسلط سے آزاد کیا ہے اور اسلامو فوبیا کی لڑائی لڑ رہے ہیں، جس طرح انھوں نے عالمی وبا میں ملکی معیشت کو بچایا ہے اور جس طرح ان کی ویژنری پالیسیوں اور میگا پروجیکٹس کی عالمی سطح پہ تعریفیں ہو رہی ہیں، جس طرح وہ احساس پروگرام اور صحت کارڈ کے ذریعے عوام کے دلوں میں گھر کر رہے ہیں۔ ۔
ایسے میں اپوزیشن کو ڈر ہے کہ اگلے ایک سال میں ان کی مقبولیت اس سے بھی کئی زیادہ بڑھ جائے گی۔ عمران خان اس وقت تینوں صوبوں، گلگت بلتستان، کشمیر اور وفاق میں پی ٹی آئی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور صرف سندھ رہ گیا ہے جہاں وہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ تین سالوں میں عوام نےمشکلات جھیل کر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کیے ہیں اور کریش ہوتی معیشت کو بچایا ہے۔
مشکل فیصلوں کے اب ثمرات ملنے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اگر ابھی سے مقبولیت کا یہ عالم ہے تو پھر اگلے ایک سال بعد اپوزیشن کو اپنا وجود ہی خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے علاؤہ کرپشن کیسز بھی اب آخری راؤنڈ میں جا چکے ہیں۔ عمران خان ساڑھے سات سو تبدیلیوں پہ مشتمل ایک نیا عدالتی نظام لاگو کرنے والے ہیں جس کے بعد نہ صرف عدالتی ڈھانچہ بدلنے سے عوام کو صرف چھے ماہ کے اندر انصاف ملے گا اور عوامی مقبولیت بڑھے گی بلکہ کرپٹ اشرافیہ بھی شکنجے میں آ جائے گی۔
ایسے میں تمام جماعتیں اس وقت حکومت کو گرانے کے لیے تمام مالی وسائل اور ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ اتحادیوں کے پاس جا کر منتیں کر رہی ہے اور مبینہ طور پہ حکومتی ارکان کو خریدنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ لانگ مارچ، یہ عدم اعتماد کی تحریکیں سب اسی وجہ سے چل رہی ہیں لیکن اس بار ان کا سامنا عمران خان جیسے زیرک اور مدبر لیڈر سے ہے۔ ان کی یہ آخری کوشش بھی انھی کے گلے پڑ جائے گی۔ ان شاءاللہ پاکستان عمران خان کی ویژنری قیادت میں آگے بڑھتا رہے گا۔