Kya Hukumat Girne Wali Hai?
کیا حکومت گرنے والی ہے؟
ملک کی سیاسی صورتحال بدل رہی ہے۔ پی ڈی ایم ایک دفعہ پھر سے ایکٹو ہو رہی ہے، اور حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے اور پارلیمنٹ کے اندر تحریکِ عدم اعتماد لانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ اس دفعہ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمٰن موجود نہیں ہیں، کیونکہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی بار بار کی بے وفائی کے بعد اپنا الگ راستہ مختص کر چکے ہیں، کیونکہ سٹریٹ پاور بہر حال مولانا کے پاس کچھ حد تک موجود ہے۔ ان کے پاس ایک مدرسہ سسٹم ہے، جس کی وجہ سے وہ ان دونوں پارٹیوں کی بہ نسبت چند ہزار لوگوں کو باہر نکال سکتے ہیں، اور دھرنا بھی دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے گرد حکومت شِکنجا کسنے جا رہی ہے۔ شہباز شریف کے خلاف بھی کیسز کھل رہے ہیں، اور بہت جلد پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کرپشن کیسز پہ کاروائی تیز ہونے والی ہے۔ حکومت ایک نیا کریمنل جسٹس سسٹم لا رہی ہے، جس کے بعد احتساب کا نظام مزید سخت ہو جائے گا۔ اپوزیشن کو مقتدرہ سے امیدیں تھیں، وہ ٹوٹ چکی ہیں اور وہاں سے کورا جواب مل چکا ہے۔ اب ان کے خلاف اپنے بچاؤ کے راستے معدود ہوتے جا رہے ہیں۔
ان تمام صورتحال سے بچنے کےلئے، اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں ایک دفعہ پھر اکٹھی ہو چکی ہیں اور حکومت گرانے کےلیے سنجیدہ کوششیں شروع کی ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے، حکومتی اتحادیوں کے ساتھ بھی رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے شہباز شریف صاحب نے، ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات کی ہے اور حکومت گرانے میں ان کا تعاون مانگا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا وفد خود شہباز شریف سے ملاقات کےلیے ماڈل ٹاؤن پہنچا ہے، جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم خود حکومت سے نالاں ہے اور مزید آپشنز پہ غور کر رہی ہے۔
دوسری جانب چوہدری برادران کو منانے کا کام، پیپلز پارٹی کو سونپا گیا ہے۔ آصف علی زرداری خود ق لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ ملے ہیں، اور انہیں تحریک عدم اعتماد پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے ساتھ ان کی آدھے گھنٹے کی خفیہ میٹنگ بھی ہوئی ہے، لیکن فی الحال ق لیگ کی جہاندیدہ قیادت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ ق لیگ نے آصف زرداری پر واضح کیا ہے کہ، وہ نون لیگی قیادت پر اعتماد نہیں کرتی۔ پرویز الہٰی صاحب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ، اپوزیشن نے تحریکِ اعتماد کے لیے ابھی مکمل تیاری نہیں۔
جب ہمیں کچھ واضح نظر آیا تو پھر فیصلہ لیں گے۔ ق لیگ کی قیادت نے پارٹی سے مزید مشاورت کے بعد، آصف علی زرداری صاحب سے ایک اور میٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں ق لیگ کی قیادت نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تذبذب میں ڈالا ہوا ہے کہ، وہ کیا فیصلہ کریں گے؟ ق لیگ کو حکومت نے ان کی اوقات سے بڑھ کر دیا ہے۔ اگر انھیں لگتا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وہ پنجاب حکومت گرا دیں، تو ن لیگ انھیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ دے دے گی، تو یہ ان کی بھول ہے۔ ق لیگی قیادت یہ فاش غلطی کرنے کے بعد، پنجاب اسمبلی کی سپیکر کے عہدے سے بھی جاتی رہے گے۔
ن لیگ پیپلز پارٹی کو دھوکہ دے سکتی ہے، تو ق لیگ کس کھیت کی مولی ہے؟ عمران خان صاحب کے پاس بھی اپوزیشن سے نمٹنے کےلیے پلان موجود ہے۔ انھیں حکومت کے گر جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، بلکہ اپوزیشن یہ غلطی کر کے ان کی مقبولیت میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔ اس سے ان کا یہ بیانیہ مضبوط ہوگا کہ، تمام چور اور کرپٹ ٹولہ اکٹھا ہو چکا ہے اور این آر او نہ ملنے پہ حکومت گرا دی ہے، اور یہ کہ یہ مافیا پاکستان میں کرپٹ زدہ نظام چاہتا ہے۔ عمران خان صاحب اس وقت بھی عوام میں کافی مقبول ہیں۔
ان کے پاس اچھی خاصی سٹریٹ پاور ہے، اور وہ اپنے اینٹی کرپٹ بیانیہ کی بدولت اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے ابھی سے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پاور شو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ اپوزیشن کو سامنے سے للکارنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف اپوزیشن عوامی رابطہ مہم شروع کر رہی ہے، تو دوسری جانب حکومت بھی میدان میں آ چکی ہے۔ کیونکہ عمران خان صاحب کے پاس ایک بڑی سٹریٹ پاور موجود ہے، اس لیے وہ اپوزیشن کے مقابلے میں کافی بڑے جلسے کر کے عوامی رائے عامہ بدل دیں گے۔
جب دیکھا جائے گا کہ اپوزیشن کو عوام میں مقبولیت نہیں مل رہی، جبکہ دوسری جانب عمران خان صاحب بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں، تو رائے عامہ خودبخود بدلنا شروع ہو جائے گی۔ میرے خیال میں عمران خان کے پاس اس وقت الیکشن جیتنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ اگر مدت ملازمت پوری کرنے سے پہلے ان کی حکومت کو گرا دیا جاتا ہے، تو ان کے پاس یہ جواز رہے گا کہ اگر انھیں ایک سال مزید دیا جاتا، تو وہ بھرپور کارکردگی دکھا سکتے تھے۔ حکومت جیسے ہی کرونا جیسی وبا سے باہر نکلی اور معیشت سنبھلنا شروع ہوئی، تو حکومت کو گرا دیا گیا۔
اسی طرح ایک اور جواز یہ ہو گا کہ حکومت نے ساڑھے تین سالوں میں جو پروجیکٹس شروع کیے تھے، ان کے ثمرات ملنے کا وقت آیا تو حکومت گرا دی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ جواز بالکل منطقی اور درست ہیں۔ حکومت کے پاس دکھانے کے لئے کارکردگی بھی موجود ہے۔ ساڑھے تین سالوں میں ہر شعبہ زندگی میں کافی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حکومت نے کریش ہوتی معیشت کو بھی بچایا ہے اور اسے استحکام کی جانب لیکر جا رہی ہے۔ امپورٹس میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے اور ایکسپورٹس پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
اربوں ڈالر کے خساروں میں کمی اور اربوں ڈالر کےقرضوں کی واپسی کے بعد بھی، زرِمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ صحت کارڈ اور احساس پروگرام نے حکومت کی عوامی مقبولیت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح ملک کو امریکہ تسلط سے آزاد کر کے خارجہ محاذ پہ کامیابیاں سمیٹی ہیں، جس سے قوم عمران خان سے کافی خوش ہے۔ ان تمام فیکٹرز کی وجہ سے یہ کہنا آسان ہے کہ، موجودہ وقت عمران خان کےلیے کافی سازگار ہے۔
اگر اس وقت ان کی حکومت گرائی جاتی ہے، تو وہ اپنی عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر الیکشن 2018 کی بہ نسبت، کئی زیادہ ووٹ لیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے کے بعد، ان کے ووٹ بینک میں کم از کم نوے لاکھ کا اضافہ یہاں سے ہی ہو چکا ہے۔ اگر اس وقت الیکشن ہوتے ہیں، تو وہ ساٹھ فیصد سے زیادہ نشستیں جیت سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے بروقت عوامی رابطہ مہم کا فیصلہ لیا ہے، جس کے ملکی سیاست پہ اہم اثرات مرتب ہوں گے۔