Jangi Mahol Main Dora e Russia
جنگی ماحول میں دورہ روس
بالآخر روس نے یوکرین پہ فل سکیل حملہ کر دیا ہے۔ دنباس، کرائمیا اور بیلا روس کے علاؤہ سمندری راستے سے بھی زبردست کاروائی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کا ایسے ماحول میں روس میں موجود ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ عالمی سفارتکاری میں اشارے بھی معنی رکھتے ہیں چہ جائیکہ کہ وزیر اعظم پاکستان روس موجود ہوں اور اس کا نوٹس نہ لیا جائے۔ دراصل عمران خان کا دورہ بہت پہلے سے شیڈول ہے۔ اگر اس دوران یہ دورہ کینسل کیا جاتا تو روس اور چین کو پیغام جاتا کہ پاکستان اب بھی امریکی کیمپ کا واضح حصہ ہے اور یوں اعتماد متزلزل ہو جاتا۔
عمران خان نے پہلے سے شیڈول دورہ کیا ہے۔ دورے سے قبل کسی قسم کی جارحیت کی نفی کی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات پہ زور دیا اور جنگ کی مخالفت کی۔ یہی نہیں یوکرین نے بھی اس دورے کو مثبت لیا اور عمران خان سے اپیل کی گئی کہ وہ جنگ رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یورپ اس وقت عمران خان کے دورے کو دفاعی تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔ پاکستان نئی مارکیٹوں کی تلاش میں ہے۔ وہ یورپ پہ مکمل انحصار نہیں کر سکتا۔ اس لیے پاکستان معاشی تعلقات کا خواہاں ہے۔
روس سٹریٹجک تعلقات چاہتا ہے لیکن یہ یورپ کی پاکستان کے حوالے سے رویہ پہ منحصر ہے اور یورپ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ مکدی گل اے کہ اس دورے سے نہ تو پاکستان اور یوکرین کے تعلقات پہ حرف آئے گا اور نہ ہی پاکستان اور یورپ الگ الگ ہو جائیں گے۔ امریکہ و یورپ سے ہمارے قدیم تعلقات ہیں جن کی جڑیں گہری ہیں۔ ہمارا مقصد خودمختار پاکستان ہے۔ ہم کسی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے آزادانہ خارجہ پالیسی پہ یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے دورے کی ٹائمنگ کو دنیا اسی لیے جنگی تناظر میں نہیں لے رہی۔
میں نے دو دن سے اس دورے پہ انٹرنیشنل تاثرات پڑھے اور سنے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس دورے کو اس تناظر میں لیا ہی نہیں گیا۔ بڑی وجہ یہ بھی ہے یوکرین ہمارا بہت بڑا معاشی پارٹنر اور دوست ملک ہے۔ ایسے میں پاکستان کا امیج غیر جانبداری والا ہی رہا ہے۔ جن کو عمران خان کے دورہ روس اور پاکستان کی اہمیت سمجھ نہیں آ رہی وہ امریکی محکمہ خارجہ کی پریس کانفرنس سنیں جس میں نہ صرف پاکستان کی خطے کے انتہائی اہم ملک کے طور پہ اہمیت واضح ہو رہی ہے بلکہ صاف لگ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کی منتوں پہ اتر آیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے الفاظ یہ ہیں :
ہم نے پاکستان کو بتادیا ہے کہ ہم یوکرین میں جنگ کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہم پاکستان کے وزیراعظم کے روس کے دورے سے آگاہ ہیں۔ عمران خان اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان طویل مدتی شراکت داری اور تعاون رہا ہے۔ امریکہ ایک جمہوری، ایک خوش حال پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو امریکی مفادات کے لیے بہت اہم خیال کرتا ہے۔ "
دورے کی پرسیپشن عالمی راہنماؤں کے بیانات اور ممالک کے موقف سے واضح ہوتی ہیں۔ خود یوکرین کا اور اب امریکہ کا پاکستان سے جنگ رکوانے میں کردار ادا کرنے کی درخواست ہماری خود مختار خارجہ پالیسی کی مظہر ہے۔ عمران خان کے دورے کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے اور میں پرامید ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ایک بڑا موقع عنایت کیا ہے اور وہ وہاں اپنی خداداد صلاحیتوں سے خطے کے دیرپا امن کےلیے کردار ادا کریں گے۔
عراق لیبیا، شام اور افغانستان کی باری اقوام متحدہ نے جنگ کے بجائے امن کی حمایت کی ہوتی تو آج حالات یہ نہ ہوتے۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ جو امریکہ کہے وہی حق ہو۔ روسی و چینی اتحاد بائی پولر ورلڈ کا نقطہ آغاز ہے۔ یوکرین پہ حملے کی وجہ یہ نہیں کہ روس اس کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ قومیت تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل یہ کھلی للکار ہے کہ روس اب خطے میں امریکی تسلط کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ بغاوت ہے۔ امریکہ کی افغانستان سے پسپائی نے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اب خطے کے حالات امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہے۔
آج امریکہ نہ تو براہ راست جنگ میں کود سکتا ہے اور نہ ہی الگ تھلگ رہ سکتا ہے۔ اس حملے سے مشرقی یورپ پہ روسی اثر و رسوخ کا آغاز ہو گیا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہم ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ اس وقت حالات کچھ اس طرح ہیں کہ ایک جانب ہم چین و روس کی آنکھ کا تارہ بن چکے ہیں جبکہ دوسری جانب یورپ بھی ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یوکرین بھی ہم سے مدد طلب کر چکا ہے اور اب امریکہ نے بھی عمران خان سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات کا اعادہ کیا ہے۔ ہماری اہمیت مسلمہ ہے۔
ہم نے ایبسولیوٹی ناٹ کے نعرے سے امریکی تسلط سے بھی انکار کر دیا ہے اور جنگ اور جارحیت کو منفی قرار دے کر اپنی غیر جانبداری کا ڈنکا بھی بجا دیا ہے۔ اس وقت ہماری گولڈن پوزیشن ہے اور ہم سب سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ پہلی دفعہ ہم نے اپنی جغرافیائی اہمیت کا بہترین استعمال کیا ہے۔ ایک ویژنری لیڈر کی قیادت میں پاکستان نے آج اپنا عالمی مقام بنا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یوکرین کے لوگوں کی حفاظت فرمائے جو یورپ کی استعماریت اور روس کی اگریشن میں پس رہے ہیں۔ یورپ اور روس جو جنگ جیسی لعنت کو خیرباد کہہ کر جنٹلمینوں کی طرح معاملات کو سلجھانے کی توفیق دے۔ آمین۔
یہاں میں بھارت کو بھی خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت ہوش کے ناخن لے۔ ہمارے پیارے پڑوسیوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ اگر چین و روس خطے سے امریکی تسلط کے خاتمے کےلیے اس حد تک جا سکتے ہیں تو پھر LACپہ چینی فوج اور LOCپہ پاک فوج کی غیر معمولی موجودگی نیا چن چڑھا سکتی ہے لہذا امریکی اشاروں پہ خطے میں فساد کو بھڑکانے کے بجائے مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل حل کریں۔ اگر پاک، روس، چین اور بھارت مل کر آگے بڑھتے ہیں تو پورا خطہ ترقی کرے گا۔ نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا اور دشمنی کے کیڑے کو سلانا ہو گا ورنہ بھارت کے دہانے پہ بھی ایک جنگ بالکل تیار کھڑی ہے جس کی پیشن گوئی کئی عالمی ماہرین کر رہے ہیں۔
چین بھارت کے اندر گھس کر بیٹھا ہوا ہے اور روبوٹ ٹیکنالوجی اور بلٹ ٹرین بلاوجہ نہیں لا رہا۔ اس وقت خطے میں طاقت کا توازن شفٹ ہو رہا ہے جس کےلیے اس قدر بڑے فیصلے لیے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ روس کو درپردہ پاکستان اور چین کی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر سے ملاقات شیڈول سے ہٹ کر غیر معمولی طور پر لمبی چلی۔ ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں بننے والے اور متوازن خارجہ پالیسی اپنائیں گے لیکن اس گریٹ گیم کے اہم کردار ہیں۔ ہمارا مقصد خطے میں دیرپا امن ہے۔