Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Imran Khan Ke Pas Options Kya Hain

Imran Khan Ke Pas Options Kya Hain

عمران خان کے پاس آپشن کیا ہیں

سندھ ہاؤس میں مقیم پی ٹی آئی کے وہ منحرف ارکان سامنے آ چکے ہیں جنھوں نے چند ٹکوں کی خاطر ملکی سلامتی اور اپنے ضمیروں کا سودا کیا۔ حیرت ہے کہ حکومت میں ہونے کے باجود عمران خان نے کسی کو بھی پیسے دے کر خریدنے کے بجائے اخلاقی سیاست کی اور اپنے ارکان کھو دیے۔ اس سے ایک دفعہ پھر ثابت ہو گیا کہ اصولوں کی سیاست کرنے والا صرف ایک شخص ہے جو اس گندگی میں اپنا دامن بچائے کھڑا ہے۔ جس نے 2018 میں بھی اپنے بکنے والے ارکان کو پارٹی سے نکال کر اس غلیظ سیاست کا گلہ گونٹا تھا اور آج بھی ان لوگوں کو ایکسپوز کر کے اور پھر قانونی طریقے سے نااہل کروا کر اس گندی سیاست کا خاتمہ کرنے کی جانب گامزن ہے۔

عمران خان نے یہ پتہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور اب ان سب کو ایکپسوز کر کے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو دیوار سے جا لگایا ہے۔ بکنے والے ارکان ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہو چکے ہیں لہذا اب یہ اسمبلی پہنچ بھی جائیں تو ان کے ووٹ نہیں گنے جائیں گے بلکہ اب ان کی سیاست کا دی اینڈ ہونے والا ہے۔ عدالت آرٹیکل 63 اے کی جو تشریح کرے گی، اس میں نااہلی تو پکی ہے۔ فیصلہ یہ ہونا ہے کہ نااہلی کی مدت کتنی یو گی، آنے والا الیکشن یا تاحیات نااہلی۔ موخر الذکر کے چانسز زیادہ ہیں۔ اس کے علاؤہ اب اتحادی بھی سخت عوامی غیض و غضب کی وجہ سے حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان نے بلکل صحیح وقت پہ آ کر بازی پلٹ دی ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن کے کھیل کو انھی پہ پلٹا کر اپنا دامن بھی بچا لیا اور اس گندے کھ کو بھی بے نقاب کر دیا۔

عمران خان اس گندے سسٹم میں امید کی ایک کرن ہیں۔ ان شاءاللہ اس غلیظ نظام کا خاتمہ بھی اللہ تعالیٰ نے عمران خان کے ہاتھ میں لکھ دیا ہے۔ عمران خان کے پاس اس وقت ڈھیر سارے آپشنز ہیں۔ حکومت بچانی ہے یا گرانی ہے، یہ ان پہ منحصر ہیں۔ وہ قانونی اور غیر قانونی، اخلاقی اور غیر اخلاقی ہر ذرائع سے حکومت بچانے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ اب ذرا غور کریں۔

پہلا آپشن یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں اور انھیں نااہل قرار دے کر ان سیٹوں پہ دوبارہ الیکشن کروائے جائیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں اور اکثریت ثابت کریں۔ عدالتی پروسیجر کے ذریعے وہ ان ارکان کو قبل از وقت نااہل کروانے کےلیے پہلے ہی کوشش شروع کر چکے ہیں۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ اپوزیشن کے جو لوگ ان سے رابطے میں ہیں، ان کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائیں۔ اس کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کے پہلو پہ بھی آخر میں بات کریں گے اور ترین کے جہاز کے ساتھ ریلیشن پہ بات ہوگی۔ فی الحال یہ دیکھیں کہ اس وقت ایک آپشن یہ بھی ہے۔

تیسرا آپشن یہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں آپشن بیک وقت استعمال کیے جائیں۔ اس صورت میں اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی اور منحرف ارکان کی سیٹیں بھی حاصل ہو جائیں گی کیونکہ یہ تو کنفرم ہے کہ اس وقت جیت وہی سکے گا جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہ لڑے گا۔

چوتھا آپشن یہ ہے کہ سندھ ہاؤس میں چھاپے مار کر ارکان کو بازیاب کروا لیا جائے۔ یہ سب قانونی ہے۔ اگر غیر قانونی کرنا پڑے تو اپوزیشن کے کچھ ارکان کو غائب کرنا حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن انتہائی غیر اخلاقی بھی ہو گا۔

پانچواں آپشن یہ ہے کہ حکومت کو بچانے کی بلکل بھی کوشش نہ کی جائے۔ اتحادیوں کو بھی آزاد کر دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دیں۔ تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہو جانے بعد اپوزیشن کو حکومت بنانے دی جائے۔ اس وقت اپوزیشن کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں ہے۔ دس پارٹیوں کے درمیان عہدوں کی بندر بانٹ ہونی ہے اور ایک کمزور اور لاچار سی حکومت کھڑی ہونی ہے۔ عمران خان عوام میں آ جائیں اور ان کو ایکپسوز کیا جائے۔ اس دوران ان کی باہمی لڑائی اور نااہلی کی وجہ سے یہ لوگ مزید ایکپسوز ہوں گے اور عمران خان مزید مقبول ہوں گے۔ اس کے بعد چھے ماہ کے بعد الیکشن ہوں تو عمران خان آسانی سے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ حکومت عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی کیونکہ ان کے پاس عوامی سمندر موجود رہے گا جو عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائی کی صورت میں پورا ملک ہلا سکتے ہیں۔

چھٹا آپشن یہ ہے کہ اتحادیوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ حکومت کو گرنے دیا جائے لیکن اس کے بعد نئی حکومت بننے ہی نہ دی جائے اور نئے الیکشن کی جانب جایا جائے۔ ایسا کروانا عمران خان کےلیے مشکل نہیں ہے۔ اس کے بعد پبلک سے دوبارہ پانچ سال کےلیے واضح اکثریت لے کر ان سب کا مکو ٹھپ دیا جائے اور بلیک میلنگ کا خاتمہ کیا جائے۔

ساتواں آپشن یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہ ہونے دی جائے۔ اجلاس بلایا جائے تو عوامی ردعمل کے ذریعے اتحادیوں اور منحرف ارکان کو اسمبلی تک نہ پہنچنے دینا بھی ایک آپشن ہے جو ڈی چوک جلسے کی وجہ سے انتہائی آسان ہے۔ پوری اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک سکنا بھی معمولی سی بات ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو روک لیا جائے اور باقی ارکان جا کر 172 کی تعداد پوری نہ کر سکیں تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔ تاہم یہ ایک غیر اخلاقی، غیر قانونی اور بزدلانہ فعل ہو گا۔

اب آتے ہیں کچھ اخلاقی پہلووں پہ۔

پہلی بات یہ ہے کہ آزاد ارکان نے کسی نہ کسی پارٹی میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ ان کو ان کے مطالبات مثلاً علاقے کےلیے ترقیاتی کاموں کےلیے ڈیمانڈ کردہ فنڈز کا وعدہ یا کسی اور مسئلے کا حل، وزرات، مشیر یا کسی بھی ڈیل کی صورت میں اپنے ساتھ ملانا عین قانونی اور اخلاقی ہے جس کا موازنہ موجودہ ہارس ٹریڈنگ سے ممکن ہی نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن کے منحرف اراکین اپنے ساتھ ملا سکتی ہے تو اپوزیشن کیوں نہیں۔ اگر حکومت اپنی پاور اور پیسے کا استعمال کر کے لوگوں کو خرید کر اپنے پاس کسٹڈی میں رکھ لے تو یہ بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے لیکن اپوزیشن سے خود ارکان حکومت سے رابطہ کریں تاکہ اگلی بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ سکیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ اتحادی یا حکومتی ارکان بھی ایسا کر سکتے ہیں تاہم انھوں نے بجٹ اور اعتماد کے دوران ووٹ دینے پہ حلف اٹھایا ہوا ہوتا ہے لہذا قانوناً بھی ان کا اپوزیشن کے ساتھ تحریک عدم اعتماد میں شامل ہونا درست نہیں ہے۔

باقی عمران خان پاکستان کی تاریخ کے سب سے بہترین فیصلہ ساز ہیں۔ انھوں نے پہلے سے مختلف پلان بنائے ہوتے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ لیں گے، جیت انھی کی ہو گی۔ انھوں نے اور بھی کئی آپشن سوچے ہوئے ہوں گے۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal