Imran Khan Ehtesab Karne Mein Nakam Ho Chuke Hain
عمران خان احتساب کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں
برائی کی سب سے خطرناک سٹیج وہ ہوتی ہے، جب لوگ برائی کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دیں۔ پاکستان میں کرپشن اس قدر عام ہوئی کہ لوگوں نے اسے معاشرت کا حصہ سمجھ لیا۔ دیگر غیر سرکاری اور ملٹری اداروں میں تو مسلسل کرپشن جاری رہی اور سزائیں بھی ہوتی رہیں، لیکن سیاستدانوں نے تو اسے جائز قرار دے دیا۔ پاکستان میں کرپشن کلچر تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔ بھٹو دور میں حالت یہاں تک پہنچی کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق کو کہا تھا کہ بھائی تھوڑا تو حوصلہ رکھو کہیں سارا کراچی نہ بیچ دینا۔
بےنظیر عجیب منطق لیکر آئیں، کہ ہم پیسہ لوٹ کر باہر اس لیے بھیجتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔ بے نظیر کے ادوار میں زرداری صاحب خود بڑے ٹھیکوں میں کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ ہر ٹھیکے میں ان کے دس فیصد شامل ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے انھیں عالمی سطح پہ بھی مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب ملا۔ ن لیگ میں تو کرپشن پارٹی ڈسپلن کا ضروری حصہ رہا۔ ان کے سپورٹر بھی " کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے " جیسی عجیب ترین منطق پیش کرتے رہے۔ لوگوں کے نزدیک کرپشن اب زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔
ایسے میں نوے کی دہائی میں ایک سیاستدان ابھرا۔ اس نے کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر دی۔ تقریبا دس پندرہ سالوں تک اسے مسلسل ناکامی دیکھنی پڑی لیکن اس نے نوجوان طبقے کو فوکس کیا اور اسے مسلسل کرپشن کے نقصانات سمجھاتا رہا۔ پندرہ سالوں بعد اس کی ٹارگٹڈ نوجوان نسل اس کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ ایسے میں پاکستان میں کرپشن کو برائی سمجھا جانے لگا۔ پانامہ لیکس آیا تو عمران خان نے اپنی مہم کو انتہائی سخت کر دیا۔
عدالت نے کرپشن کیس سننے سے انکار کر دیا۔ وزیر اعظم اور دیگر راہنماؤں نے حساب دینے سے منع کر دیا۔ ساری پارٹیاں اکٹھی ہو گئیں۔ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر وزیروں نے اپنے وزیر اعظم کو یقین دلایا کہ کرپشن تو قوم کا مسئلہ ہی نہیں ہے، لوگ بھول جائیں گے لیکن وہ شخص ڈٹ گیا کہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے جو لوگ بھول جائیں گے۔ یہ تو انھی کا پیسہ ہے۔ اس نے حکومت کے خلاف ایسی مہم شروع کی کہ ان کی اقتدار کی بنیادیں ہلنے لگیں۔
بنی گالہ اور اسلام آباد جیل بن گیا۔ شہر بند ہونے لگے۔ پنجاب خیبرپختونخوا بارڈر پہ عوامی سیلاب کو روکنے کےلیے پولیس کو جنگی ماحول بنانا پڑا اور پوری رات لڑائی ہوئی۔ کپتان نے اعلان کر دیا کہ ہم مقررہ وقت پر اسلام آباد کےلیے نکلیں گے۔ آپ چاہیں آسمان سے آئیں یا زمین سے، کل بنی گالا پہنچیں۔ لوگوں نے دوسرے شہروں سے سفر کیا۔ اس کے بعد راولپنڈی اسلام آباد جام ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ پیدل ٹکڑیوں کی شکل میں بنی گالہ پہنچے۔
حکومت یہ صورتحال دیکھ کر گھبرا گئی۔ انہوں نے عدالت جانے کا اعلان کردیا اور عدالت نے بھی کیس سننے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ اور یوں ایک لمبے اور صبر آزما کیس کے بعد پہلی دفعہ پاکستانی وزیراعظم کرپشن پر نااہل ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے "مجھے کیوں نکالا " ریلی نکالی، لیکن انھیں وہ شہرت نہ مل سکی، جو ججز بحالی کے وقت انھیں ملی تھی۔ عوام نے کرپشن کلچر سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔
2018 میں ہونے والے الیکشن میں پاکستانی قوم نے کرپشن کلچر کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو چن لیا۔ عمران خان نے کرپشن مہم میں پہلی سٹیج کامیابی سے حاصل کر لی۔ انہوں نے ہمیشہ قوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ چوروں اور لٹیروں کو کسی صورت ڈھیل یا این آر او نہیں دیں گے اور ان کا سخت احتساب کیا جائے گا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
پچھلے چالیس پچاس سالوں سے مختلف اداروں کے اندر جو سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کے نتائج کافی خطرناک ثابت ہوئے اور کرپٹ اشرافیہ احتساب سے بچتی چلی گئی۔ وہ اقتدار میں چوروں اور لٹیروں کے احتساب کا نعرہ لے کر آئے تھے لیکن دو سال کیس لڑ کر جن لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچایا تھا، وہ انھی کے حکومت میں ضمانتوں پہ رہا ہو چکے ہیں۔ اس ساری مہم کا مقصد ان کے احتساب کے نعرے کو ڈس کریڈٹ کرنا ہے۔