Azad Kharja Policy (3)
آزاد خارجہ پالیسی (3)
آزاد خارجہ پالیسی متعین ہوتے ہی ایک بھونچال آ چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے چرچے ہیں اور خطے کی سیاست کے اس اہم موڑ پہ ملک کو ڈی سٹبلائز کرنے کی کوشش جاری ہے۔ امریکہ نے تین سال بعد ڈونلڈ بلوم جیسے فتنہ پرور اور شاطر شخص کو بطور سفیر پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ ہدایات وہاں سے آ رہی ہوں۔ یہ شخص حکومتیں بنانے اور گرانے میں انتہائی ماہر ہے جو عراق، کویت، مصر اور تیونس میں اپنی مہارتیں دکھا چکا ہے۔ اس کے علاؤہ یہ اسرائیل میں بھی اہم لابنگ میں بھی ملوث رہا ہے۔
افغان بارڈر پہ بھی پاکستان کےلیے مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور پھر پشاور میں ہونے والا گرینڈ دھماکہ قوم کو ایک دفعہ پھر دہشت پھیلانے اور ملک کو افراتفری کا شکار کر کے سرمایہ کاری روکنے کےلیے کیا جا رہا ہے جس کےلیے چین اور بعد ازاں ر وس کی کمپنیاں راضی ہوئی ہیں۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر سے امریکی قونصل جنرل ولیم میکانکل کی ملاقات بھی انتہائی اہم ہے جس میں دورہ ر وس پہ بھی بات چیت ہوئی۔ سازشی تھیوریوں پہ میں اعتبار کم ہی کرتا ہوں اور جو کروا رہا ہے امریکہ کروا ہے، کے راگ الاپنا مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن اس وقت تمام حقائق اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
آج تک امریکہ کا جو طریقہ کار رہا ہے، وہ اندرونی طور پہ حکومتیں الٹا کر اور شدت پسندی کے زریعے کئی ممالک میں اپنے ہدف پورا کر چکا ہے۔ کہیں نہ کہیں مجھے یہ سب آپس میں لنک لگ رہا ہے۔ یورپ میں پڑے اپنے اثاثے بچانے کےلیے یہ ہمارے کھاؤ سیاست دان تیاری پکڑ چکے ہیں۔ امریکہ نے تین محاذوں پہ بیک وقت لڑائی چھیڑ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ان شاءاللہ جس طرح یہ قوم آگ و خون کے دریا عبور کر کے دہشت گردی کی سب سے بڑی لہر کو روک چکی ہے، اس بار ایسی بزدلانہ کاروائیوں کو کاؤنٹر کر لے گی۔
اب پاکستان کو ڈی سٹبلائز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قوم کو اتحاد و یگانگت کا ثبوت دینا ہو گا اور اس وقت ملک میں افراتفری پیدا کرنے والوں کو یاد رکھنا ہو گا۔ کل کو یہی لوگ ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنے کےلیے ووٹ مانگنے آئیں گے۔ عین جس وقت پاکستان اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو رہا ہے، کھیل کے میدان آباد ہو رہے ہیں اور حکومت خارجہ محاذ پہ پاکستان کو ایک نئی سمت دے کر مضبوط معیشت کی جانب بڑھ رہی ہے، پاکستان میں بدامنی کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔
پشاور جامعہ مسجد میں دھماکہ اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ روسی حکومت اور خود سابق افغان صدر حامد کرزئی اپنے انٹریوز میں الزام عائد کر چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں داعش کو مضبوط کر رہا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ داعش کا وجود ہی انکل سام کی مرہونِ منت ہے اور اس کا سب سے زیادہ فایدہ امریکہ کو ہی ہوا ہے۔ پاکستانی قیادت اس وقت آزاد خارجہ پالیسی کا اٹل فیصلہ کر چکی ہے اور اب کوئی بھی پریشر پاکستان کو جھکا نہیں سکتا۔ یورپی یونین کے سفیروں کی غیر سفارتی حرکت اور اس پہ پاکستان کے جوابی خط کے بعد کل میلسی میں وزیر اعظم کے خطاب نے اس تاثر کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ واضح کیا تھا کہ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی کریں گے لیکن اس کی غلامی نہیں کریں گے۔ ہم امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں مدد دیں گے لیکن امریکی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنی حکومت آنے کے بعد یہ ثابت بھی کر کے دکھایا۔ وہ امریکہ کے ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ اور بعدازاں نیٹو سپلائی بند کرنے کے بھی ریکارڈ رکھتے ہیں جس سے ان کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ افغانستان میں امریکی حملے کے خلاف انھوں نے مقبول بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے ہر فورم پہ امریکہ کی مذمت کی۔
انھوں نے اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن پہ بھی امریکہ کوآڑے ہاتھوں لیا تھا اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف وزری پہ سخت ریمارکس دیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں امریکہ نے آج تک ایک بھی ڈرون حملہ نہیں کیا۔ حکومت آنے کے فوراً بعد انہوں نے امریکہ سے برابری کے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن امریکہ کی گردن سیدھی نہیں ہو رہی تھی۔ ٹرمپ نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے تعلقات قائم کر لیے لیکن صدر جوبائڈن وہی پرانے مزے ڈھونڈ رہے تھے لہٰذا انھوں نے پاکستان کو پریشرائز کرنے اور بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
امریکہ کو لگتا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح پاکستان کو پریشرائز کر کے اپنی بات منوا سکتا ہے لیکن اس بار قیادت بدل چکی تھی۔ اس بار پاکستان کی کمان اس شخص کے ہاتھ میں آ چکی ہے جو سپر پاور کو ایبسولیوٹی ناٹ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ عمران خان نے ملکی وقار پہ سمجھوتے سے انکار کر دیا اور تعلقات بگڑتے بگڑتے اس مقام تک جا پہنچے کہ پاکستان، چین اور روس کے مزید قریب ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کو یہاں تک لانے کا زمہ دار خود امریکہ ہے۔ امریکہ نے اپنے تمام پتے پھینک دیے ہیں۔ اب پاکستان امریکہ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ پاکستان کو بلیک میل کرنے کےلیے اب امریکہ کے پاس کچھ نہیں بچا۔ آزاد خارجہ پالیسی کی اس تشکیل میں قوم کو عمران خان کے ساتھ ساتھ امریکی قیادت کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے۔