Azad Kharja Policy (2)
آزاد خارجہ پالیسی (2)
امریکہ کے طریقہ کی ہمیشہ صحیح روش رہی ہے کہ وہ نہ سننے کا قائل نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے تو اس کا رویہ ویسے بھی ہمیشہ ڈکٹیٹر والا رہا ہے۔ اس نے پاکستان کو ہمیشہ ڈکٹیٹ کیا یہاں تک کہ پاکستان کو اپنی ہی سرزمین پہ ڈرون حملے برداشت کرنے پڑے، پڑوسی ملک میں کاروائیوں کےلیے بیس فراہم کرنے پڑے اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے نام پہ، اپنی عزت، اپنا وقار اور اپنی سلامتی داؤ پہ لگانی پڑی۔
اس سب کی وجہ ہماری مفاد پرستی اور بزدلی تھی جسے امریکہ کے خلاف جانے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ انھیں یورپ میں پڑے اپنے اثاثے پیارے تھے، انھیں اپنی حکومت پیاری تھی، انھیں اپنا اقتدار عزیز تھا۔ یا پھر اس سب کی وجہ وہ آمر بنے جنھیں مغرب سے اپنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی حکومت کو تسلیم کروانا تھا۔ اگر امریکہ اور یورپ ان کو ملک کا سربراہ ماننے سے انکار کر دیتے تو ان کی حکومت نہیں چل سکتی تھی لہٰذا انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ملکی مفادات کا سودا کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔ اپنے گزشتہ خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے بھی تقریباً انھی تحفظات کا اظہار کیا۔
جہاں تک موجودہ قیادت کا سوال ہے تو وزیراعظم عمران خان صاحب نے جب سیاست میں قدم رکھا، وہ تب سے امریکی بدمعاشی کے خلاف تھے۔ مشرف دور میں امریکہ نے پاکستان کے اندر ڈرون حملے شروع کیے۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائنر تھا۔ حکومتی احتجاج کے باجود اس دور میں درجن بھر ڈرون اٹیک ہوئے تاہم زرداری دور میں امریکہ نے معمول بنا لیا اور ہر دوسرے روز حملہ ہوتا۔ اکثر سویلین کے گھروں پہ اٹیک ہوتے۔ ان حملوں میں کئی معصوم لوگ مارے جاتے۔ تب ایک شخص تھا جو پوری شدت سے اس کی مذمت کر رہا تھا لیکن حکومت میں انھیں رکوانے کی اہلیت نہیں تھی۔
2012 میں اس شخص نے اپنی احتجاجی تحریک شروع کی اور وزیرستان تک مارچ کیا۔ کہا گیا کہ انھیں اس مارچ میں امریکہ مار دے گا لیکن اس نے پوری دنیا کے سامنے امریکہ کی بدمعاشی بے نقاب کی۔ 2013 میں اس کو خیبرپختونخوا میں حکومت ملی تو اس نے امریکہ کو ٹف ٹائم دینا شروع کیا۔ اب اس کے پاس بڑا پلیٹ فارم تھا۔ تاہم ڈرون حملے مسلسل جاری تھے اور وفاقی حکومت بے بس دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اس نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنے صوبہ کو محفوظ کرنے کےلیے طالبان سے مزاکرت شروع کیے اور آج جو پوری دنیا مذاکرات کی بات کر رہی ہے، یہ بات کرنے والا اس وقت وہ اکیلا سیاستدان تھا جسے امریکی پٹھوں اس وقت طالبان خان بھی کہتے تھے۔
اس دوران 2014 میں امریکہ نے پھر سے ڈرون اٹیک کیا اور مزاکرات کےلیے آنے والے طالبان مرکزی راہنما کو مار دیا۔ تب عمران خان نے امریکہ کو اپنا اصلی روپ دکھایا اور نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے وفاق کی مخالفت کے باوجود کے پی کے میں ٹرک چیک کیے جاتے اور امریکی فوج کو جانے والی ترسیل کو روک لیا جاتا۔ امریکہ کے خلاف اتنا سخت اقدام آج تک کسی سویلین نے وفاقی حکومت کے تعاون کے بغیر نہیں کیا ہو گا۔ پوری دنیا اس جرات پہ حیران تھی۔
جولائی 2018 میں امریکہ نے آخری ڈرون اٹیک کیا کیونکہ جولائی میں عمران خان جیت چکے تھے۔ اس دن سے لیکر آج تک ان کو ایک بار بھی پاکستانی سلامتی کو چیلنج کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ وہ امریکہ جو اپنے سیکرٹری اسٹیٹ سے فون کروا کے ہمارے حکمرانوں سے ڈو مور کے مطالبے کرتا تھا، اب اس کی تو عمران خان کال بھی خود نہیں سنتے۔ امریکہ نے پہلی بار پاکستان سے مدد کی "درخواست " کی۔ یہ صدر ٹرمپ کے ذریعے عمران خان سے پہلی درخواست تھی۔ اس کے بعد جو بائڈن آئے تو انھوں نے ایک دفعہ پھر پرانی روش اختیار کی لیکن عمران خان ٹس سے مس نہ ہوئے۔
بالآخر امریکہ جتنا پریشر ڈال سکتا تھا اس نے ڈالا لیکن نتیجہ یہ نکلا پاکستان امریکہ سے مزید دور ہوتا چلا گیا اور بالآخر روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی شروع کر دی گئی۔ بدمعاشی اب چلتی نہیں کہ حکمران وہی ہے جو بغیر حکومت کے نیٹو سپلائی بند کر دیتا ہے۔ اڈوں کے معاملے پہ امریکہ نے ڈھیر لابنگ کی لیکن عمران خان نے کورا جواب دیا۔ الحمدللہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے پاس خوددار حکمران ہے۔ اسے یہ فکر نہیں کہ کل کو کرپشن کر کے کس مغربی ملک میں بھاگے گا لہٰذا وہ کسی کی نہیں سنتا۔ اسے پاکستان کی سلامتی عزیز ہے۔ اسے اپنی قوم و ملک کا وقار عزیز ہے۔ اس نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ نہ خود جھکے گا نہ اپنی قوم کو جھکنے دے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم امریکی غلامی سے نکل کر روس اور چین کی غلامی میں چلے جائیں گے؟ اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ چین نے ہمیں خارجہ معاملات پہ ڈکٹیٹ نہیں کیا۔ ہم امریکہ کے اہم اتحادی رہے ہیں اور وار آن ٹیرر میں اس کے فرنٹ لائن سپورٹر رہے ہیں۔ افغانستان میں بھی ہم اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ کئی عالمی معاملات میں ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن چین کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں آیا۔ اسی طرح روس نے بھی بھارت کو ڈکٹیٹ نہیں کیا۔
لہٰذا امریکہ و یورپ کے مقابلے میں روس اور چین ڈکٹیشن کے عادی نہیں لگتے اور وہ پاکستان کو مجبور نہیں کریں گے۔ آزاد خارجہ پالیسی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے امریکہ یا یورپ سے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ ہم ان کے ساتھ بھی بہترین معاشی تعلقات قائم کیے رکھیں گے لیکن یہ تعلقات برابری کی سطح پر ہوں گے۔ انشاءاللہ ہم اپنے فیصلے خود لیں گے۔