America Ka 8 February
امریکہ کا 8 فروری
دنیا میں ایک شور برپا ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت سے ٹرمپ نے امریکی اسٹبلشمنٹ کو شکست فاش دے دی جس میں اسلحہ ساز اور طاقتور میڈیا گروپس جیسے CNN وغیرہ شامل تھے۔ امریکہ تو سپر پاور ہے۔ دنیا بھر کی سہولیات ہیں، خوشحالی ہے، 80 فیصد لٹریسی ریٹ ہے، بہترین تعلیمی ادارے ہیں، تیز ترین انٹرنیٹ ہے، سیاسی شعور ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ ٹویٹر دو سالوں سے بند ہے۔ انٹرنیٹ کمپنیوں پہ ریاستی کنٹرول ہے۔ آدھا وقت لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بیروزگاری اور بھوک مری ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی انٹرنیٹ استعمال ہی نہیں کرتی۔ جو کرتی ہے اس میں سے بھی اکثریت ٹک ٹاک اور واٹس ایپ تک محدود ہے۔ آدھی آبادی تک تو آواز ہی نہیں پہنچتی۔ اکثریت پیٹ کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرنا افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
ٹرمپ کا مقابلہ اسٹبلشمنٹ سے ضرور تھا اور اس پہ کیسز بھی بنے مگر اس کے ساتھ پاکستان کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔
ٹرمپ کی پارٹی کو توڑنے کے لیے ملک بھر میں کریک ڈاؤن نہیں ہوا، ٹرمپ کے مرکزی راہنماؤں سے جبری پریس کانفرنس کروا کر پارٹی نہیں چھڑوائی گئی، ٹرمپ کو الیکشن سے چھے ماہ قبل ہی جیل میں ڈال کر اور پھر نااہل کرکے اور بعد ازاں دس دس اور چودہ سال کی لمبی سزائیں سنا کر اور اسے ار ریلیونٹ کرکے اس کی عدم موجودگی میں الیکشن نہیں کروائے گئے، ٹرمپ پہ میڈیا میں تشہیر پہ پابندی نہیں لگی اور نہ پاکستان کے برعکس اس کا نام لینا بھی جرم ٹھہرا، ٹرمپ کی آدھی پارٹی پہ دہشتگردی کے پرچے نہیں تھے اور راہنما روپوش اور اشتہاری نہیں تھے، ٹرمپ کے راہنماؤں اور حامی صحافی و کارکنان کو اغواء، تشدد اور ان کے خاندانوں کو ریاستی جبر کا سامنا نہیں تھا۔
ٹرمپ کی پارٹی سے انتخابی نشان چھین کر اسے الیکشن سے باہر نہیں کیا گیا، ٹرمپ کے راہنماؤں کے لیے الیکشن میں کھڑا ہونا جرم نہیں بنا، ٹرمپ کے امیدواروں کے سکینڈرز اور پرپوزرز سے کاغذات نامزدگی نہیں چھینے گئے، ٹرمپ کے لیے حکومت کے براہ راست زیر انتظام جانبدار اور کنٹرولڈ بیوروکریسی سے الیکشن نہیں کروائے گئے، ٹرمپ کے امیدواروں کو رنگ برنگے نشانات پہ نہیں لڑنا تھا اور نہ گاؤں گاؤں محلہ محلہ ان نشانات کو ووٹرز کو یاد کروانے کی پریشانی تھی۔
ٹرمپ کے امیدواروں کے لیے الیکشن سرگرمیاں کرنا جرم نہیں تھا، نہ ریلی نکالنے پہ دہشتگردی کے پرچے ہونے تھے، ٹرمپ کے ہاں کوئی الیکشن کمیشنر نہیں تھا جو ایک فون کال پہ رزلٹ بدلتا بلکہ ہر ریاست اپنے طور پہ الیکشن کروا رہی تھی، ٹرمپ کو فوجی دستوں کے حملوں اور جعلی فارم 47 کا سامنا نہیں تھا، ٹرمپ کو الیکشن کے دن موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کا سامنا نہیں تھا، ٹرمپ کو کسی قاضی فائز عیسیٰ کا سامنا نہیں تھا جو الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی جانبداری، دھاندلی اور بے ضابطگی پہ سہولت کاری کرتا، ٹرمپ کو کاغذی ووٹنگ کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی کے چانسز ہی نہیں رہے تھے۔
ٹرمپ کے حامیوں کو اس بات کی کنفیوژن بھی نہیں تھی کہ پتہ نہیں ہم جیت کر بھی جیت پائیں گے؟ لیڈر نااہل اور چودہ سال کے لیے اندر ہے تو پتہ نہیں ہمارے ووٹ سے وہ باہر آ بھی پائے گا یا نہیں؟ کیا ہمیں ووٹ دینا چاہیے یا یہ ضائع ہوگا؟
اس بے سروسامانی اور ریاستی جبر میں پاکستان کی پسماندہ قوم نے آٹھ فروری کو جو انقلاب برپا کیا، خدا کی قسم دنیا بھر میں اس جدوجہد پہ ریسرچ ہونی چاہیے اور دنیا بھر کے سلیبس میں پولیٹیکل سائنس میں اس کا ایک پورا چیپٹر ہونا چاہئے۔
پاکستان نے دنیا کی تاریخ میں خونخوار طاقتوں کے سامنے پرامن جدوجہد اور موثر تحریک کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس نے سیاست کی ڈائمنشن ہی بدل دی ہیں، جس نے سیاسی حرکیات کے معانی ہی بدل دیے ہیں، جس نے عوامی طاقت کو بطور اسٹبلشمنٹ متعارف کروایا ہے۔
مینڈیٹ پہ ڈاکہ اور اس تحریک کا اگلا پڑاؤ ایک الگ بحث ہے اور اس تحریک کی کامیابی اور اقتدار تک رسائی کے بعد ایک اور تاریخ رقم ہوگی مگر ریاستی فسطائیت کے سامنے پرامن سیاسی جدوجہد اور ریاستی مشینری کو بے سروسامانی اور سوشل میڈیا کی طاقت سے پلٹنے کی جس انوکھی تاریخ کی بنیاد پاکستانی قوم نے رکھ دی ہے، اس نے تاریخ کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے۔ دنیا اس عوامی شعور کے انقلاب کو بطورِ ٹیسٹ کیس سٹڈی کیا کرے گی۔