Kya Hum Koi Ghulam Hain?
کیا ہم کوئی غلام ہیں؟
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی جیت چکی، اس سفر کا آغاز اس بیانیہ سے شروع ہوا کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں؟ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح دراصل اس بیانیہ کی فتح ہے، جس بیانیہ پہ 10 اپریل کو ملک گیر احتجاج ہوا۔ عوام کا جم غفیر اس احتجاج میں شامل تھا۔ عوام، عمران خان سے مہنگائی کی وجہ سے کافی تنگ تھیں، پھر کیا وجہ بنی کہ عوام 10 اپریل کو اتنی بڑی تعداد میں باہر نکلی؟
وجہ تھی غیرت و خودمختاری، وجہ تھی ہم کسی کے غلام نہیں سواۓ اللہ کی ذات کے، کہ کسی طاقتور ملک کا تھرڈ کلاس بیورو کریٹ کس طرح میرے ملک کے منتخب کردہ وزیراعظم کو دھمکی، پھر اس کے خلاف سازش کر کے اسے حکومت سے بے دخل کر سکتا ہے۔ بس کسی بھی باغیرت پاکستانی کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ جیسے کہ اقبال نے فرمایا تھا۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اس ضمنی انتخابات میں ایک طرف پی ٹی آئی تھی اور دوسری طرف تمام سرکاری مشینری اور طاقت ور حلقہ لیکن جیت عوام کی ہوئی۔ اس سے دو باتیں واضح ہو گئی اب مزید 90 کی سیاست کی اس ملک میں کوئی گنجائش نہیں، اور دوسری یہ کہ اب اس ملک کا اصل حاکم وہ ہی ہو گا جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کے آئے گا۔ اب بند کمروں میں بیٹھ کر اس ملک کے 22 کروڑ لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
پی ٹی آئی کی جیت یقیناً عمران خان کے بیانیہ کی جیت ہے، لیکن اس کے بہت سارے اور عوامل بھی شامل ہیں، جن کا تذکرہ کرنا میری بطور صحافی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے اس الیکشن میں بہت جان ماری، یہاں تک کہ عمران خان صاحب نے ان جگہوں پہ جا کے بھی جلسے کیے، جہاں پہ شاید ہی آج تک پاکستان کی تاریخ میں اتنے مقبول لیڈر نے جلسے کیے ہوں۔ اب یوں کہہ لیں عمران خان اس الیکشن کو گلی محلوں تک لے گئے۔
دوسرا اس بار پی ٹی آئی نے ٹکٹ بہت سوچ سمجھ کر اور زیادہ تر انہی لوگوں کو دیے جو واقعتاً حق دار تھے۔ ایک دو جگہوں پر کارکنان ناخوش تھے، جیسے کہ خوشاب پی پی 83، لیکن وہاں پہ بھی پی ٹی آئی نے میدان مار لیا۔ اسی طرح ن لیگ کے ہارنے کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ جیسا کہ ن لیگ نے تمام حلقوں میں ان لوگوں کو ٹکٹ دیا جو پی ٹی آئی سے منحرف ہو گئے تھے۔ ان تمام حلقوں میں ن لیگ کے اپنے تگڑے امیدوار موجود تھے۔
انہوں نے کھلے دل سے اپنے حریفوں کو بطور حلیف قبول نہیں کیا اور میرے نزدیک ن لیگ کے کارکنان بھی کسی حد تک غیر جانب دار رہے ہوں گے۔ ایک اور وجہ غیر یقینی صورتحال، مہنگائی بھی ہے۔ کیونکہ ن لیگ کے کارکنان کو یہ اعتماد تھا کہ ن لیگ اور شہباز شریف تجربہ کار لوگ ہیں اور یہ لوگ آتے ہی ہمارے دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھیں گے اور ہمارے تمام مسئل حل ہو جائیں گے۔ لیکن تمام آرزوئیں چند دنوں میں ہی بے سود ہو گئی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد اب ایک حقیقت تو واضح ہو گئی کہ وفاقی حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ اب جلد از جلد انتخابات بہت ضروری ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک اب اس حکومت کو سنجیدگی سے نہیں لے گا سوائے ان کے جن کے آشیرباد سے یہ لوگ آئے ہیں۔
آخر میں جنہوں سے غلطی ہو گئی تھی، ان سے بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ عوام آپ سے محبت کرتی ہیں۔ خدارہ اس اعتماد اور خلوص کے رشتے کو مزید ٹھیس نہ پہنچائیں اور اپنی غلطی کو سدھار لیں کیونکہ کیا ہم کوئی غلام ہیں؟ جو آپ کہیں گے ہم کر لیں گیں۔