America Jang Bharka Raha Hai
امریکہ جنگ بھڑکا رہا ہے
روس اور یوکرائن کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا بڑا ضروری ہے کہ سمجھ آۓ کہ اصل مسئلے کی جڑ کیا ہے؟ یوکرائن پہ سویت یونین کا قبضہ تھا۔ جب سویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو یوکرائن بھی 1991 میں ایک آزاد "جمہوریہ"ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پہ ابھرا۔ لیکن یوکرائن میں جو بھی حکومت بر ِسر اقتدار آتی، اسے روس کی خوشنودی حاصل ہوتی کیونکہ وہ روس کے خطے میں مفاد کا ہامی ہوتا۔ لیکن نومبر 2013 میں جب روس کی حمایت یافتہ صدر "Viktor Yanukovych"نے روس کی ایما پر یورپی یونین سے فری ٹریڈ کے معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد پورے یوکرائن میں مظاہرے پھوٹ پڑے، ان مظاہروں کو "Euromaidan"کا نام دیا گیا۔
جس کو آپ آسان الفاظ میں یوکرائن میں انقلاب کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ مظاہرے جو کہ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے شروع ہوا تھا لیکن مظاہرے شروع ہونے کے بعد اس کا دائرہ کار بڑھتا چلا گیا، اسی اثناء میں ایک مطالبہ اور سامنے آیا کہ یوکرائن کے آئین کو دوبارہ 2004 کی اصل صورت میں سامنے لایا جائے، جو کہ موجودہ روس نواز صدر نے حکومت میں آنے کے بعد اس میں بہت ساری ردوبدل کی تھی۔ روس ان مظاہروں کے خلاف کھل کر یوکرائن میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کی مدر کر رہا تھا۔
خیر بالآخر فروری 2014 میں حکومت اور حزب ِاختلاف کی جماعتوں میں قبل از انتخابات کا معاہدہ طے پا گیا۔ اور عبوری حکومت قائم ہو گئ۔ عبوری حکومت نے آتے ہی یورپی یونین سے فری ٹریڈ کے معاہدے کو قبول کر لیا۔ عوام تو پہلے ہی موجودہ حکومت کہ خلاف تھی اس وجہ سے انتخابات میں Petro Poroshenkoتقریبا 54 فیصد ووٹ لے کے یوکرائن کے صدر منتخب ہو گئے۔ جن کا تعلق حزب اختلاف سے تھا۔ یوکرائن میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ روس کے مفاد میں بالکل نہیں تھا۔
یوکرائن کے یورپی یونین کے ساتھ بڑھتے روابط، روس کے لیے پریشان کن تھے۔ اس وجہ سے روس نے کریمیا پہ فوجیں اترا دیں۔ کریمیا ایک خودمختار خطے کے طور پر 1991 سے موجود تھا۔ جس میں زیادہ تر آبادی روسی نسل لوگوں کی ہیں۔ کریمیا، روس کے لیے اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ کریمیا "Black sea"کے ساتھ ملحق ریاست تھی اگر یہ بھی یوکرائن کی طرح یورپ کے ساتھ روابط بڑھاتی، تو خطے میں strategicallyروس بالکل تنہا ہو جاتا اور یورپ بلکہ امریکہ کے رحم و کرم میں ہو جاتا کیونکہ 2014 سے پہلے روس اور یوکرائن دونوں کی نیول بسیز کریمیا میں موجود تھی، اس وجہ سے کریمیا میں روس کی حامی حکومت کی ضرورت تھی۔
روس نے کریمیا میں فوج داخل کرنے کے بعد وہاں پہ ریفرینڈم کروایا، یوں 90 فیصد زائد لوگوں نے روس کی حمایت یافتہ حکومت کی حمایت کر دی۔ اب معاملات کچھ یوں ہے کہ یوکرائن اب نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے جو کہ روس کے لیے بالکل بھی قابل قبول نہیں۔ کیوں کہ نیٹو کا رکن بننے کے بعد نیٹو کا جدید ترین اسلحہ یوکرائن میں نصب ہو جاۓ گا، یوں طاقتور ملکوں کا جھرمٹ روس کے عقب میں آ جائے گا۔ یعنی کے امریکہ، روس کس طرح یہ سب کچھ قبول کر سکتا ہے؟
امریکہ کا کردار اس تمام معاملے میں ایک "spoiler" کی حثیت رکھتا ہے۔ روز امریکا کی طرف سے ایسے بیانات آ رہے ہیں جو کہ جنگ کو بڑھکا رہے ہیں۔ روس نے اپنی کچھ فوج بارڈر سے پیچھے بلوا لی تاکہ حالات کو سازگار بنایا جاۓ، لیکن اسی وقت امریکہ نے مزید 3000 کی نفری پولینڈ میں تعینات کر دی۔ امریکہ کا اس معاملے میں اتنا منفی کردار ہے کہ یوکرائن کے صدر کو امریکہ کو کہنا پڑا، آپ ہمارے لوگوں میں اضطراب کی کیفیت کو مزید نہ بڑھکائیں۔ اب امریکہ یہ سب کیوں کر رہا ہے؟ اس پہ ایک پورا کالم لکھا جا سکتا ہے۔
میرے نزدیک اس کی جو چیدہ چیدہ وجوہات ہیں، اس میں ایک تو یہ کہ اس وقت امریکہ میں inflation rateتاریخ کی بلند ترین سطح، 7 فیصد پہ پہنچ چکا ہے۔ تو یہ جنگ، جیسے کہ گلوبل ٹائمز نے بھی ذکر کیا ہے، اس جنگ کا سب سے بڑا فائدہ امریکہ کی ڈیفنس انڈسٹری کو ہوگا۔ اس وجہ سے وہ روزانہ صبح یہ اعلان کرتا ہے کہ روس کل یوکرائن یہ قبضہ کرنے جا رہا ہے، دوسری طرف ایسے بیانات نہ ہی روس کی جانب سے آرہےہیں اور نہ ہی یوکرائن کی طرف سے۔
دوسری وجہ یہ کہ امریکہ اپنی سپر پاوور کی حثیت دن بہ دن کھو رہا ہے، اب امریکا کو محاذوں کی ضروت ہے جو کہ وہ دنیا کی برھتی قوتوں کے خلاف استعمال کر سکے۔ چین اور بھارت کا محاذ اس کے لیے کافی نہیں تھا اس لیے یوکرائن کی طرف جنگ کو بڑھکاۓ جا رہا ہے۔ اس میں نقصان انسانیت کا، پر فائدہ امریکہ کا ہے۔