Selab Mutasreen Ab Hamesha Imdad Ke Muntazir Rahen Ge
سیلاب متاثرین اب ہمیشہ امداد کے منتظر رہے گے
میرے یہاں دکان تھی، ایک ملبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔ جو گر چکی ہے، دکان سے کما کر گھر جایا کرتا تھا۔ مگر اب گھر بھی نہیں رہا۔ گھر میں میرے بیٹیاں بیوی رہتی تھیں۔ گھر تھا چھت تھی چاردیواری تھی پردہ تھا، مگر اب کھلے آسمان تلے بنے چاردیواری اپنے بیوی بیٹیوں کو لیے بیٹھا ہوں کوئی ان پر مظلومیت کی ںکاہ ڈالتا ہے تو کوئی وحشت کی۔ کھانا روز مل جاتا ہے، لوگ دیتے ہیں۔
ہم کھاتے ہیں، مگر جب میں اپنے گھر کی جانب دیکھتا ہوں جہاں پانی جاتے جاتے نشانی کے طور پر صرف ملبہ چھوڑ گیا یہ ملبہ میری غربت میرے بے سہارا ہونے پر زور زور سے قہقہے لگاتا ہے، ہاں میں سیلاب متاثرین امداد کا منتظر ہوں ایسے کئی واویلہ آپ روز میڈیا پر دیکھتے پڑھتے یا سنتے ہوئے گے، جو سیلاب متاثرین کے جناب سے حاکم اعلیٰ کے سوئے ہوئے منشی کو جگانے کے لیے نشر ہوتے ہیں۔
شاید کسی سلاب متاثر شخص کی کہانی سنتے وقت آپ کے بھی منہ سے بے ساختہ طور پر اوف نکلتا ہو گا، کچھ دیر دماغ میں وہ عکس بھی بنتا ہو گا اور پھر اللہ رحم کرے کے فقرے کے ساتھ ہم اپنی خوشی میں خوش ہم سب سیلاب متاثرین کی تکلیفیں، بے سہارا ہونا بھلا کر اپنے کاروبار اپنے گھر کی مصروفیات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی مشکلات، تکلفیں کم کرنے کے لیے کئی دوست ممالک نے پاکستان امداد بھیجی۔
جن کی تصویریں آپ سب نے ملاحظہ فرمائی ہو گی۔ ابھی تک 120 جہاز بیرون ملک سے پاکستان امداد کے لیے پہنچ چکے ہیں۔ جن کو دیکھ کر ہم سب تسلی کر چکے ہیں کہ اب شاید ان لوگوں کے غم کا موسم ٹل سکے اور خوشحالی کی بہار کا رخ ان علاقوں کی طرف ہو سکے، جہاں سیلابی پانی لوگوں کا سرمایا، خوشیاں، سہارا سب چھین کر چھلا گیا، مگر ایسا نہیں ہے۔
کیونکہ پاکستان میں تمام سسٹم جسم کے اس کندے دانے کی طرح ہو چکا ہے۔ جسے جس طرف سے بھی ہاتھ لگایا جائے، اس میں سے گند ہی نکالتا ہے۔ امداد پہنچنے کے بعد یہ امداد کچھ عرصہ حکومت کے کنٹرول میں رہے گی تب تک سیلاب متاثرین بے سہارا رہے گے، پھر وفاقی حکومت ہر صوبہ کی حکومت سے رابطہ کرے گی پھر صوبہ کے حکومت اپنے علاقے کا جائزہ لے گی۔
وہاں جا کر ایک غریب کے ساتھ بیٹھ کے کھانے کھا کر فوٹوشوٹ کروا لے گے پھر متاثر علاقے کے ڈی سی صاحب سے رابطے ہو گا۔ جو ایک لسٹ تیار کریں بس یہ لسٹ ہی فیصلہ کرے گی کہ کون متاثرین میں شامل ہے اور کون نہیں، اس طرح ڈی سی صاحب ان متاثرین کے وقتی طور پر بادشاہ بن جائیں گے۔ جن کو وہ چاہئے گے امدادی رقم یا سامان میسر ہو گا۔
اس لیے سیلاب متاثرین پہلے کوئی سیاسی اثر رسوخ تلاش کریں گے تاکہ ڈی سی صاحب کی لسٹ میں ان کا نام آ سکے اس کے لیے وہ اپنی مقام ایم این اے کے پاس جائیں گے، منت سماجت کریں گے اور اگر کسی کے پاس کسی سیاسی شخصیت کی سفارش نہیں ہو گی تو ایسے لوگ سیاسی یتیم ہوتے ہیں، سیلاب متاثرن کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی متاثرین بھی ہوتے ہیں۔
جن کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا باقی اکثریت میں نام ڈی سی صاحب کو کال پر ہی تمام نام وصول ہو جائیں گے باقی ڈی سی صاحب کسی ایک دن متاثر علاقے کا چکر لگا کر تصویریں بنا لیں گے، جہاں وہ چہرے پر ایک عدد بناوٹی غم یا غرور کا ماسک لگا کر جائیں گے، جہاں ان کا میڈیا ایڈوائز ان کی اچھی اچھی تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوٹ کرے گا۔
اس طرح سیلاب متاثرین کی امداد جاری رکھی جائے گی، اس ہیڈ لائن کے ساتھ جناب کا سوشل میڈیا بھر دیا جائے گا اور سیلاب متاثرین تک امداد ملنے کے اس سارے عمل میں 4 سے 6 ماہ کا وقت لگ سکتا تھا، تب تک سیلاب متاثرین یوٹیوبر کے ویو کا ذریعہ بنتے رہے گے۔ اور ان کے خود کا زریعہ معاش لوگوں کے صدقے و خیرات ہوں گے۔ اس طرح یہ سیلاب متاثرین ہمیشہ امداد کی امید میں رہے گے اور پھر ایک نا سیلاب ان کے سر آ جائے گا۔
غربت، بیماری، بے گھر ہونے کا سیلاب۔ اور اس طرح ان سیلاب متاثرین کے نوحے تاریخ کا حصہ بنتے جائیں گے۔ جسے ہم عرصے تک سنتے رہے گے۔