Valentine Day (1)
ویلنٹائن ڈے (1)
ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی رسم ہے جو ملک پاکستان میں رائج ہو چکی ہے جس کو فروغ دینے میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے ہماری یہ بھولی بھالی قوم اس سے بے خبر تھی۔ مگر انٹرنیٹ نے اس بھولی بھالی قوم کو اس بے ہودہ رسم سے آگاہ کیا۔ پہلے ہم اس کی تاریخ پھر احادیث کی روشنی میں اس کا مقام پھر اس کے بارے میں فتاویٰ جات پھر اس کے بارے میں نظم ملاحظہ کریں گے۔
آئیے ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بے ہودہ رسم جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج ہو چکی ہے اس کے تاریخی حقائق کیا ہیں۔ یہ رسم کیسے شروع ہوئی؟ کب شروع ہوئی؟ اور کس نے اس کی ابتداء کی؟
تاریخی حقائق۔
ویلنٹائن ڈے جو ملک پاکستان سمیت ساری دنیا میں منایا جاتا ہے اسے یوں کہنا چاہئے کہ "دیوانوں کا دن" اس کی ابتداء کس طرح ہوئی اس ضمن میں کافی روایات ہیں مگر معتبر روایت ملاحظہ کریں اس کے بعد بقیہ روایات ملاحظہ کیجئے گا۔
(1) Encylopedia Britannica میں یہ رقم ہے کہ اس شیطانی دن کا تعلق ہرگز ہرگز "Saint Valentine" سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ مشرکانہ تہوار ہے جو قدیم رومیوں کے دیوتا Lupercalia کا تہوار ہے۔ جو "Juno Februata" کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔ اس دن تمام لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے تھے اور تمام مرد اس برتن سے ایک پرچی نکالتے جاتے۔ جس لڑکی کا قرعہ جس مرد کے ہاتھ آتا وہ لڑکی تہوار کے اختتام تک اس مرد کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی ساتھی بن جاتی۔
المیہ یہ کہ یہ دونوں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے اور سارا سال اس شیطانی فعل پر فخر کیا کرتے تھے۔ روم میں جب عیسائیت کو فروغ ملا تو یہ شیطانی فعل ختم کرنے کے بجاۓ اس کو مزید فروغ دیا تف ہے کہ ہماری بھولی بھالی قوم انکی تقلید کر رہی ہے۔ اور اپنی دینی معاشرتی و اخلاقی اقدار اور شرم و حیاء اور غیرت کو پس پشت ڈال کر اس غیر شرعی، غیر اخلاقی، اور فحش شیطانی فعل و رسم کو بڑی باقاعدگی سے منا رہے ہیں۔
ہندوؤں کا احتجاج۔
میرے سامنے 14 فروری 2008ء کی خبریں اخبار کا ایک صفحہ ہے کہ جس میں نئی دہلی میں ہندو ویلنٹائن ڈے کے چھپے بینرز کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ وہ غیر مسلم ہو کر اس کے خلاف ہیں مگر ہم مسلمان ہو کر بھی اپنی دینی معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ (روزنامہ خبریں۔ 14 فروری 2008)
مختلف ممالک میں ویلنٹائن ڈے۔
ویلنٹائن ڈے روم میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ 1400 عیسوی میں پیرس میں یہ شیطانی رسم ویلنٹائن ڈے "ہائیکورٹ آف لَو" منائی گئی۔
یہ دن مذہب و اخلاق سے آزادی کا تہوار ہے۔ وہ خوشی کس کام کی جو ہمیں دین اور اخلاق سے دور کر دے۔ اسلام میں ایمان، حیا اور وقار بنیادی اقدار ہیں۔ مجھے 14 فروری کے روزنامہ پاکستان میں یہ پڑھ کر انتہائی کوفت ہوئی ایک بوڑھی عورت اس دن کو منانے کی خاطر سرخ گلاب خرید رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ حال ہے تو ہماری نوجوان نسل کا کیا بنے گا۔ انتہائی افسوس ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب کوئی قوم دشمن کے کپڑے پہنے اور دشمن کے گیت گانے لگ جائے اور اس کے تہواروں میں مشغول ہو جائے تو وہ قوم جنگ سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی ہے۔
(2) دوسری روایت میں ہے کہ تیسری عیسوی میں جب روم پر شہنشاہ کلاڈیئس (دوم) کی حکومت تھی۔ تو ملک کو کئی خون ریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل روم جنگوں سے تنگ تھے۔ شادی بیاہ پر پابندی تھی۔ ایسے میں ایک عیسائی راہب ویلنٹائن نے لوگوں کی چوری چھپے شادی کروانی شروع کر دی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے قید کیا گیا۔ اور ایسے میں اسکی جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور خطوط کا سلسلہ شروع ہوا لڑکی خط کے آخر پر لکھتی۔ You are my Valentine اور وہ آخر میں لکھتا From your Valentine۔ پھر اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے اس کے جرم کی پاداش میں 14 فروری کو قتل کیا گیا۔ پھر پوری قوم نے اس کی یاد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا۔
(3) اس کے بارے میں ایک اور روایت بھی ملتی ہے کہ اس کا آغاز اوپر کا لیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی آستینوں پر لکھتے تھے اور تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ 14 فروری (Meating Season) ایامِ اختلاط میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ دراصل ویلنٹائن ڈے "یومِ عیاشی و اوباشی" ہے۔
باقاعدہ چھٹی۔
1840 میں امریکہ میں اس دن کے موقع پر باقاعدہ چھٹی کی گئی۔
ہندو دھرم کیلئے خطرہ۔
بھارتی انتہا پسند جماعتیں"وشوا ہندو پریشد" اور "بجرنگ دل" بھی اس تہوار کو ہندو دھرم کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر گل فروشوں کے سرخ گلاب فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ (بحوالہ روزنامہ "دن")
(انگلستان میں پہلا کارڈ 1477 ئ میں ایک شخص نے اپنی منگیتر کو لکھا۔)
ایک عیسائی اپنی کتاب "اے ہسٹری آف ویلنٹائن" میں رقم طراز ہے کہ اس یوم کی تاریخ تہوار، رسم و رواج تحریف در تحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں شرمناک رسم کا حصہ بن گئے ہیں۔ جنکی عملی، عقلی اور فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کر رہا ہے۔
جاری ہے۔