Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Abid Buzdar
  4. Sach Likhne Ki Saza, Tashadud, Tazleel Aur Khamoshi

Sach Likhne Ki Saza, Tashadud, Tazleel Aur Khamoshi

سچ لکھنے کی سزا، تشدد، تذلیل اور خاموشی

قلم کی سچائی کبھی بندوق کے سائے میں نہیں جُھکتی، مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی سچ لکھنے والے کو گولی، ہتھکڑی یا کوڑے کا جواب دیا جاتا ہے۔ منشا فریدی، وہ کالم نگار ہے، جو اپنی تحریروں میں ہمیشہ ریاستِ پاکستان، پاک فوج اور اداروں کے وقار کا پرچم بلند کرتا رہا۔ جس نے لفظ کی طاقت کو اپنی قوم کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ جس نے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو نہیں، بلکہ سچائی اور انصاف کو سلام کیا۔

لیکن، یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن کی محبت میں لکھنے والے عالمی سطح کے تجزیہ کار "منشا فریدی" کو ریاستی محافظوں میں سے ہی ایک، ایس ایچ او خیرپور سادات "نور خان" کے غیر قانونی ایکٹ کا شکار ہونا پڑا۔ محبِّ وطن کو اغواء کیا گیا، اس پر تشدد ہوا، نشہ آور پانی پلا کر اس کی زبان کو قابو میں کیا گیا اور گن پوائنٹ پر اعترافی ویڈیو ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد وہ وحشت ناک عمل، برہنہ کر دینا، جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابلِ تصور ہے۔ یہ صرف ایک شخص کی تذلیل نہیں، بلکہ ریاستی انصاف، انسانی وقار اور صحافت کی روح پر کاری وار ہے۔

منشا فریدی کا جُرم صرف یہ تھا کہ وہ ریاست اور اس کے اداروں کے حق میں لکھتا رہا، حکمرانوں کی اچھی پالیسیوں کو سراہتا رہا اور اپنی سیاسی وابستگی کو ایک جمہوری انداز میں ظاہر کرتا رہا۔ وہ تو اپنے قلم سے دشمنوں کے پروپیگنڈے کا جواب دیتا تھا، پھر آج وہی شخص اپنے ہی ملک میں مظلوم کیوں ہے؟

یہ سوال صرف ایس ایچ او یا چند بااثر افراد کے خلاف نہیں، بلکہ پورے نظامِ انصاف کے سامنے ہے۔ اگر آج اس ظلم پر پردہ ڈال دیا گیا تو کل کوئی اور محبِ وطن اسی راہ پر چلنے کی ہمّت نہیں کرے گا۔ پھر وطن کی محبت اور سچ کی آواز، خوف کے سائے میں دفن ہو جائے گی۔

ریاست کے اعلیٰ عہدیداران، وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب اور وہ تمام ادارے جو انصاف کے ضامن ہیں، کیا آپ اس صریح غیر قانونی اور غیر انسانی عمل پر خاموش رہیں گے؟ یا پھر ایک محبِ وطن کی عزت اور انصاف کے لیے کھڑے ہوں گے؟

منشا فریدی کی پُکار آج صرف اس کا ذاتی مقدمہ نہیں، یہ پاکستان میں قلم، سچ اور وفاداری کی بقا کا مقدمہ ہے۔ اگر آج اس کی عزت لوٹائی گئی، ظالم کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا، تو یہ ثابت ہوگا کہ پاکستان اپنے محبِ وطن بیٹوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ ورنہ یہ زخم نہ صرف ایک صحافی کے دل پر، بلکہ پوری قوم کے ضمیر پر نقش ہو جائیں گے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr