Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Iqbal
  4. Tareekh

Tareekh

تاریخ

تاریخ و قلم کا عجب سنگم ہے کہ تاریخ کا اظہار قلم میں پوشیدہ ہے مگر کہ قلم صاحب دانش و صاحب تاریخ کے ہاتھ میں ہو اور یہی ہاتھ دانش و تاریخ کو سہل کرتے ہوئے صدیوں و دہائیوں کے سفر کو چند الفاظ میں سمو دیتا ہے اور شعور و آگاہی کا باعث ہوتا ہے۔ مطالعہ تاریخ یوں بھی اہم ہے کہ حال کو جاننا اور مستقبل کو دیکھنا مطالعہ تاریخ کے ہمراہ سہل ہو جاتا ہے۔ عصر حاضر میں دنیا میں بیتی گزشتہ سات آٹھ دہائیاں تاریخ انسانی کو کیسے موڑتی رہیں یہ تمام معاملات آج موضوع قلم ہیں۔

دوسری جنگ عظیم مغرب میں موجود یورپ کے لئے تباہی اور طاقت کو کھو دینے کا باعث ثابت ہوئی۔ اقوام عالم پر حکومت کرتی یورپی اقوام پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بتدریج طاقت و حکمرانی سے ہاتھ گنواتی رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کا اختتام بالآخر یورپ کی پوری دنیا پر حکومت کا بھی اختتام کرتی گئی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی و دیگر یورپی قومیں جنہوں نے پوری دنیا کے مشرق و مغرب میں سلطنتیں قائم کر رکھیں تھیں دوسری عالمی جنگ میں تمام دنیا کے وسائل جھونکنے کے باوجود بھی باہم دست و گریبان ہو کر طاقت، حکومتیں اور عالمی اثر و رسوخ گنوا بیٹھے، یوں گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا میں موجود سپر پاور یورپ اپنی سپر پاور شپ ختم کر بیٹھا اور علاقائی امن اور ترقی و تعمیرات کا خواہاں ہوتا گیا اور دنیا میں سپر پاور کی جگہ یکدم خالی ہوگئی۔ پھر چشم صاحب قلم و تاریخ انسانی نے دیکھا کہ اور زیادہ مغرب میں موجود ریاستہائے متحدہ امریکہ نے یورپ کی کھوئی ہوئی بالادستی حاصل کرکے سپر پاور کا ٹیگ حاصل کر لیا اور پانچ چھ دہائیاں اپنا تسلط قائم کرکے امریکی تشخص کو عالمی طور فعال کیا۔

گزشتہ تین صدیوں میں یورپ نے سپر پاور کی حثیث سے دنیا میں کالونیل نظام قائم کیا اور مشرق و دیگر تمام دنیا کے وسائل، معدنیات، نوادرات و دیگر تمام سرمایہ یورپ میں منتقل کر لیا۔ تمام دنیا کے وسائل پر اقتدار قائم کرکے یورپ کی اقوام نے سپر پاور شپ حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور روس نے بتدریج طاقت و وسائل میں اضافہ کرنا شروع کیا کہ سپر پاور بن سکیں دونوں ممالک نے اسی مقصد میں طویل عرصہ کولڈ وار میں بھی گزارا اور آخر کار سویت یونین افغانستان میں شکست کے بعد ٹوٹ کر بکھر گیا اور امریکہ تن تنہا یورپ کو اپنے پیچھے کھڑا کرکے اقوام عالم میں سپر پاور بن گیا۔

سپر پاور اقوم عالم میں سب سے زیادہ وسائل و طاقت اور دنیا کے تمام معاملات پر اثر انداز ہونے والے ملک کو سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ نے سپر پاور کے دروانئیے میں تمام مشرق کا سرمایہ کاروبار، کمپنیوں کی صورت میں مغرب یعنی امریکہ میں منتقل کر دیا۔ امریکی ڈالر نے دنیا کی کرنسیوں پر تسلط قائم کیا اور تمام دنیا کے وسائل پٹرولیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق، اسلحہ برآمد، زراعت و دیگر تمام اہم معاملات کو امریکہ کی سرپرستی میں چلایا۔ اس تمام دوران مشرق و ایشیا اپنے سرمایہ و وسائل کے مغرب سے واپسی کے لئے سنجیدہ کام کرتا رہا اس ضمن میں چین نے حیران کن طور دنیا کو چوکنا کیا اور عالمی طاقتوں کو فکر انگیز کر دیا۔

کولڈ وار سے ٹوٹنے والے روس نے دوبارہ دو دہائیوں کے مختصر دورانئیے میں کھویا ہوا وقار کم و بیش بحال کر ہی لیا۔ مگر چین نے عصر حاضر میں خاص طور پر زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، خلائی ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی اور کامرس کی عالمی سطح کی سب سے بڑی گراف حاصل کر لیں۔ اس مقصد کے لئے چین نے مسلسل گزشتہ سات دہائیوں میں شب و روز لگائے اور پلاننگ کو کامیاب عملی جامہ پہنایا اور عالمی کاروبار پر تسلط قائم کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و دیگر تمام دنیا سے طاقت مغرب میں امریکہ منتقل ہوئی اور طویل سات دہائیوں میں حکومت کی، مگر انہی سات دہائیوں میں مشرق یعنی چین نے خاص طور اور روس نے عام طور دنیا کے مغرب میں موجود طاقت کو دوبارہ مشرق یعنی ایشیا میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔

یوں جیو پولیٹکس کی بساط پر آج مشرق و مغرب طاقت کے حصول میں حریف ہیں اور تقریباََ کم و بیش برابر وسائل رکھتے ہیں۔ آج دنیا میں موجود نہ نظر آنے والی کشمکش اسی عالمی حالات کے باعث ہے۔ تو طاقت، وسائل و مشرق و مغرب کی اس کھینچا تانی میں دو مختلف نظام حکومت تاریخی اعتبار سے دنیا میں موضوع رہے۔ مغرب یعنی یورپ و امریکہ دنیا میں جمہوریت کے علمبردار ہیں اور جمہوریت کو ہی سب سے بہترین نظام حکومت گردانتے ہیں۔ جبکہ چین و روس جمہوریت کے روپ میں آمریت اور ون پارٹی سسٹم کے قائل ہیں۔ یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ روس و چین اپنی موجودہ ترقی اور کامیابی کو اپنے پولیٹیکل سسٹم کی وجہ سے ہی سمجھتے ہیں۔

چین میں ون پارٹی سسٹم اور روس میں پیوٹن کی طویل حکومت کو مغرب یعنی امریکہ و یورپ کے مبلغ آمریت بتاتے ہیں اور جمہوریت کے فوائد میں انسانوں کو حاصل حقوق و آزادی پر مفصل گفتگو کرکے دنیا میں سب سے بہترین نظام کہتے ہیں جبکہ چین اور روس کا ماننا ہے کہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور ہر طرح سے تقسیم معاشروں میں آمریت یا نظام کا تسلسل خواہ وہ غیر جمہوری ہی کیوں نہ ہو ہی کامیابی اور ترقی کا باعث ہو سکتا ہے۔ جبکہ موجودہ چین و روس یعنی مشرق کا ماننا ہے کہ مغربی جمہوریت مشرقی معاشروں میں علاقائی، لسانی، مذہبی عقائد کی بنا پر معاشروں کو تقسیم اور اتحاد میں نفاق کا باعث ہے اور چین و روس اپنے نظام حکومت کے تسلسل کو ہی اپنی کامیابی گردانتے ہیں اور اسی نظام کی بدولت دنیا کی طاقت کا کم و بیش آدھا حصہ ایشیا میں منتقل کر سکیں ہیں۔ اسی ضمن میں ایران کو جانیں گزشتہ تین دہائیوں سے امریکہ کی پابندیوں کے باوجود ایران بقا میں ہے اور روس و چین ایران کے ماڈل کو نظریاتی سپورٹ کرتے رہتے ہیں۔

گزشتہ سات دہائیوں میں طاقت و وسائل کی مشرق و مغرب میں منتقلی اور سپر پاورز کے اختلافات میں مغربی جمہوریت اور بالمقابل چین و روس ماڈل تیسری دنیا کے غریب ممالک میں موجود مغربی جمہوریت کو تنقید کرتے ہیں کہ ایشیا میں موجود تیسری دنیا کے ممالک مغربی جمہوری نظام کے باعث مذہبی، لسانی، علاقائی و دیگر محرکات کی بنا پر مسلسل تقسیم ہو رہے ہیں اور اندرونی خلفشار و تحریکوں میں الجھ کر ترقی و حصول طاقت سے دور ہیں۔

آج تاریخ انسانی اہم و نازک دور سے گزر رہی ہے۔ دنیا میں کون سا واقعہ کب کس طرح تاریخ انسانی کو بدل دے اس بات کا فیصلہ واقعات کے دوران نہیں کیا جا سکتا مگر گزرتا وقت تاریخ بدلنے والے واقعات کو ضرور واضح اور باعث فہم بناتا ہے۔ اسی ضمن میں دیکھیں کہ نائن الیون کے واقعہ نے دنیا میں کیسا ہنگامہ بپا کیا۔ نائن الیون ہونے کے بعد دنیا کے حالات میں تبدیلی نائن الیون کی وجہ سے ہی تھی۔ خاص طور مشرق وسطی کے جغرافیائی حالات اور اسرائیل کو ملنے والی طاقت اور مدد جبکہ دیگر علاقائی ریاستوں کو جنگوں میں الجھانا اور مشرق وسطی کے نقشہ کو ہی تبدیل کر دینا نائن الیون کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

قارئین گرامی تاریخ کے ان حقائق کو دیکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ داران اور عوام الناس کو بہترین مستقبل کے لئے مزید ممکن سنجیدہ و فعال اقدامات کو لینا اور قوم و ملک کو صف اول کے ممالک تک لے کر جانا ہی توقیر و وقار اور پوٹینشل کے مطابق ہے۔

Check Also

Zawal Ki Andhi Khaai Mein Girta Hua Muashra

By Nusrat Abbas Dassu