Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Iqbal
  4. Taleemi Inqilab Ka Muntazir Pakistan

Taleemi Inqilab Ka Muntazir Pakistan

تعلیمی انقلاب کا منتظر پاکستان

عصر حاضر میں انقلاب جنگوں، تحریکوں یا شور و غوغا کی صورتوں میں نمودار نہیں ہوتے، بلکہ عصر حاضر کے انقلاب ٹیکنالوجی کی ترقی کی صورت میں بپا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہمسائیگی میں موجود عوامی جمہوریہ چین ہو یا مغرب میں امریکہ، روس ہو یا یورپی اقوام ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ، تجارت، سپورٹس، میڈیکل یا انجینئرنگ وغیرہ وغیرہ تمام شعبہ جات میں انقلاب بپا کرکے ہی دنیا میں صف اول کے ممالک بن چکے ہیں اور دنیا کے باقی ایک سو اسی یا نوے ممالک پر ہر طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

ہمیں یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آج دیکھنے، سوچنے، جاننے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ زندگی کے وہ کون سے بنیادی ترین شعبہ جات ہیں جن میں سنجیدہ اور ہنگامی نوعیت کے کام کرکے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اوپر بتاتے گئے عصر حاضر کے صف اول کے ممالک میں شامل کر سکتے ہیں اور اقوام عالم میں زندہ و جاوداں و خوددار قوم کی شناخت حاصل کرکے اپنی آنے والی نسلوں اور تمام دنیا کو بہترین ترقی یافتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان دے سکتے ہیں۔ تو جانئیے اور فہم کو آگے بڑھائیں۔

اقوام عالم میں موجود صف اول کی اقوام کی ترقی و کامیابی و کامرانی کا راز خواندگی سے آغاز ہوتا ہے اور معاشرے میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت کے ہونے پر انتہا کو پہنچتا ہے۔ ہمیں آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مطلوبہ متعین معیار پر ہمارے ارد گرد خواندگی کتنی ہے؟ اور ہمارے معاشرے میں اعلی تعلیم یافتہ افراد اکثریت میں ہیں یا محض محدود اقلیت؟ خواندگی کی شرح کو دیکھا جائے تو ترقی کا باعث محض خواندگی نہیں ہے بلکہ اعلی تعلیم اور عصر حاضر کی جدت پر مبنی تعلیم نظام معاشرہ کو چلانے اور آگے بڑھانے کے لئے لازم ہے۔

پرائمری، مڈل تا میڑک سطح تک کسی نہ کسی حد تک خواندگی کو پورا کرنے کے لئے گورنمنٹ و نجی تعلیمی ادارے کردار ادا کر رہے ہیں مگر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا موجودہ مشکل معاشی حالات میں عوام الناس جن کی اکثریت اوسط آمدن و محدود وسائل پر مبنی ہے جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا نوے فیصد سے بھی زائد بنتے ہیں تعلیم کے میٹرک سطح تک کے اخراجات ادا کر پا رہے ہیں اور یہاں سے ہی تعلیمی نظام اور درحقیقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ترقی یافتہ معاشرے کے خواب میں رکاوٹیں حائل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

آبادی کے تناسب سے گورنمنٹ سکولوں کی تعداد کا کم ہونا، نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اخراجات کا زیادہ ہونا، بڑے شہروں کے علاوہ پاکستان کے چھوٹے شہر، دوردراز کے قصبے یا دیہات و پہاڑی علاقوں کے طول و عرض میں واقع گورنمنٹ کے قائم تعلیمی اداروں میں سہولیات اور جدید تعلیم کا فقدان ہونا، ٹیوشن و اکیڈمی کلچر کو پاکستان میں پروان چڑھاتا ہے، ٹیوشن و اکیڈمی کلچر کے باعث تعلیمی اخراجات میں اضافہ والدین کے اوپر مشکل معاشی حالات میں تعلیم کو کمپرومائز کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کاغذ، چھپائی، سیاہی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث کتابوں و کاپیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نظام تعلیم کے لئے میٹرک سطح تک والدین کے لئے مزید مشکلات کے انبار لگا دیتا ہے۔

پاکستان میں موجود مڈل کلاس والدین کی اکثریت بچوں کے میٹرک تک کے تعلیم کے اخراجات ہی بمشکل پورے کر پاتے ہیں کہ کالج و یونیورسٹی کی تعلیم تو والدین کے لئے خواب ہی ہے۔ بہرحال میٹرک کے بعد والدین کے لئے کالج کی تعلیم مہنگے ترین اخراجات کے ساتھ مشکل ہوتی جاتی ہے کیونکہ کالج کی تعلیم میں میرٹ کے حصول کے لئے نجی مہنگے کالج کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یا گورنمنٹ کالج کے ساتھ مہنگی ٹیوشن یا مہنگی اکیڈمی لازم ہے کہ میڈیکل یا انجینئرنگ کے میرٹ کے لئے سنجیدہ اخراجات ہی میرٹ کے حصول کے لیے لازم ہیں۔

کالج کے بعد محدود دستیاب یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے اخراجات کا لا متناہی سلسلہ والدین کے اعلی تعلیم یافتہ بچوں کے خواب میں مزید مشکلات کا باعث ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بڑے شہروں میں قائم نجی اداروں کے اخراجات ہوں یا میرٹ بن جانے کے بعد میڈیکل و انجینئرنگ کالجز کے مہنگے اخراجات اوسط درجہ آمدن والے والدین کے لئے ادا کرنے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔

میرٹ نہ بننے کی صورت میں نجی میڈیکل کالجز و نجی انجینئرنگ اداروں کی لاکھوں یا کروڑوں کی فیسیں اوسط درجہ آمدن والے طبقہ جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اکثریت ہے کے لئے ادا کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کی سطح پر موجود انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس کے جدید ترین شعبہ جات کی تعلیم دینے والی جامعات و ادارے یا یونیورسٹیوں کے لاکھوں پر مبنی اخراجات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اکثریت عوام الناس کی کم آمدن اور مہنگے تعلیمی اخراجات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بیشتر بچوں کو جدید تعلیم سے دور رکھ رہے ہیں۔

المختصر یہ کہ مہنگی ہوتی تعلیم میٹرک کے بعد کالج میں پہنچنے والے بچوں کی تعداد میں واضح کمی لاتی ہے اور کالج کے بعد تو یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد مہنگے تعلیمی اخراجات کے باعث مزید قلیل اور محدود ہو جاتی ہے۔ یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جامعات کی سطح تک پہنچنے والے بچوں کی کم تعداد کی ممکنہ وجوہات اور بھی ہو سکتی ہیں مگر آج مشکل معاشی حالات اور مہنگے تعلیمی اخراجات جامعات کی سطح تک پہنچنے والے بچوں کی تعدد قلیل اور محدود ہونے کے اسباب میں سب سے اہم سبب ضرور ہے۔

دوسری جانب اعلی تعلیم یافتہ معاشرے کو دیکھیں، اعلی تعلیم آئی ٹی کے میدان میں انقلاب بپا کر رہی ہے۔ تجارت گلوبل و آن لائن ہونے کے باعث امریکہ و چین کی کمپنیاں پورے دنیا کی تجارت پر ایمازون و دیگر اسی طرح کی کمپنیوں کے ذریعے تسلط بنا چکی ہیں۔ مینوفیکچرنگ میں چین نے تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور مینوفیکچرنگ بھی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ، چین، روس و یورپ کی میڈیکل ٹیکنالوجی دنیا میں موجود بیماریوں کے خلاف نت نئے علاج لا رہی ہیں یہ سب بھی میڈیکل کی جدید تعلیم کے بغیر نا ممکن ہے۔ انجینئرنگ نے چین و تمام دنیا میں شاہکار کھڑے کر دئیے ہیں، پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے لئے مربوط انفراسٹرکچر معیاری انجینئرنگ کے باعث ہی ممکن ہو سکے گا۔

زراعت کے شعبے میں جدید ریسرچ جدید تعلیم کی بنا پر ہی ہو سکے گی اور ہم جدید ریسرچ کی بنا پر ہی اپنی زرعی مصنوعات کی پیداوار کو بڑھا کر کثیر زرمبادلہ اور برآمدات بڑھا سکتے ہیں، مگر اس سب کے لئے بھی زراعت کی جدید تعلیم لازم ہوگی۔ ان تمام شعبہ جات کی جدید تعلیم کے لئے وطن عزیز کی جامعات عالمی درجہ بندی میں سیکڑوں نمبروں کے بعد آتی ہیں وہ بھی محض چند جامعات۔ یعنی وقت کی اہم ترین ضرورت موجودہ جامعات کو آپ گریڈ کرنا یا ایسی نئی جامعات کا قیام جن کا معیار و جدت بھری تعلیم آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے لے کر خلا تک اور وطن عزیز میں پروڈکشن، ایگریکلچر تک ہر شعبہ میں جدت لائے اور پاکستان اپنی تحقیق و مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہو سکے اور یہی بنیادی طریقہ کار عالمی درجہ بندی کی معیاری یونیورسٹیوں کے لئیے ہے۔

یہاں یہ بھی دیکھیں کہ یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی میں صف اول کے تمام یونیورسٹیاں صف اول کے ممالک کی ہی ہیں یعنی تحقیق، پروکشن اور مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہونے کا آغاز اور بنیادی طریقہ کار اپنی جامعات کو مضبوط، مربوط اور تحقیق سے پروڈکشن تک کے بنیادی عمل میں خود کفیل ہونا ہے اور یہی اہم محرک صف اول کے ممالک کو دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک سے ممتاز بناتا ہے۔

جرائم کی شرح و شدت کو کم کرنے کے لئے تعلیم ہی بنیادی و کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ تعلیم شعور و آگاہی کا باعث ہے اور تعلیم کا دیا ہوا شعور و آگاہی ہی جرائم کے خلاف بنیادی رکاوٹ و مزاحمت قائم کر سکے گا۔ کیوں کہ تعلیم باعث روزگار ہے اور روزگار کی فراوانی جرائم کی کوکھ کو اجاڑ دیتی ہے۔ جدید تعلیم مینوفیکچرنگ، آئی ٹی، تجارت کی صورت میں وطن عزیز کے زرمبادلہ اور برآمدات کو بڑھانے کی بھی ذمہ دار ہوگی جس کے نتائج معاشی ترقی کی صورت ہے اور تعلیم یافتہ و معاشی ترقی یافتہ معاشرے بہرصورت جرائم کی جڑ اکھاڑ دیتے ہیں۔

طبقاتی، لسانی، علاقائی، نسل پرستی، شدت و انتہا پسندی، دہشت گردی و دیگر تمام قسم کی"تقسیم" بھی تعلیم یافتہ معاشروں میں ہمیشہ نا پسند کی جاتی ہے، یعنی بڑھتے منظم جرائم اور ہمہ قسم تفریق و تقسیم معاشروں اور اقوام کے زوال و پھوٹ کا باعث ہوتی ہے۔ مگر مزید بہتر، مربوط نظام تعلیم اور پاکستان میں اعلی جدید تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت ان تمام محرکات کو کم سے کم کر سکتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

خیر اس اہم و نازک ترین موضوع پر کتاب بھی لکھوں تو موضوع و زوق تشنہ ہی رہے گا۔ مگر آج اہم یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنے آنے والی نسلوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کے صف اول کے ممالک میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو یہ جدید اور اعلی تعلیم کے بغیر شاید ممکن نہ ہو سکے۔

Check Also

Bohat Deir Ka Di Meharban Aate Aate

By Dr. Ijaz Ahmad