Shaam Mein Nayi Subh Ya Gehri Shaam
شام میں نئی صبح یا گہری شام

جیو پولیٹکس کی بساط پر نئی چالیں چلنے کی رفتار تیزی پکڑتی جا رہی ہے۔ یوکرائن و روس کی ہنگامہ آرائی اور ٹرمپ کے انتخابات جیتنے کے بعد فال آف سیریا یعنی شام میں بشار الاسد کی پارٹی کا اکسٹھ سالہ اقتدار محض چند دنوں میں بغیر کسی مزاحمت کے ختم ہو جانا اور شام میں نئے حالات کا پیدا ہونا انتقال اقتدار کا عمل تو ہے مگر کیا یہ تمام عمل اتنا ہی سادہ اور شام کے لوگوں کے لیے سہولت کا باعث ہے اور کیا شام کے لوگ انتقال اقتدار کے اس عمل سے حقوق پا سکیں گے یا ملک شام کی اندرونی سالمیت کے خلاف مزید محاذ آرائی نہیں ہوگی؟
ملک شام میں 2011 سے 2024 تک جاری جنگ میں ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ مہاجر ہوئے، چھ لاکھ سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے اور دس لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو گئے۔ دوران جنگ حلب اور ادلب جیسے تاریخی اور قدیم شہروں میں کیمیائی ہتھیاروں سے بمباری بھی کی گئی، جن کے خوفناک کیمیائی اثرات سے اموات کے بھیانک مناظر کی منظر کشی مشکل کام ہے۔ بہرحال باغی گروپس اور بشار الاسد حکومت کے درمیان جاری جنگ میں شرمندہ انسانیت ہی ہوئی کیوں کہ جنگ و طاقت کا سامنا تو بہر صورت نہتے بچوں، عورتوں اور مردوں کو کرنا پڑا۔
ملک شام میں جاری حصول اقتدار کی جنگ میں مختلف ممالک اپنے اپنے مقاصد کے تحت جنگ میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے، عالمی طاقتوں کا کھیل بھی عجب ہے کہ میدان جنگ کا انتخاب ہمیشہ دوسروں کی سرزمین کی صورت میں کرتے ہیں۔ شام کو دیکھئے بشار الاسد کی حکومت کو روس، ایران سپورٹ کرتے تھے۔ ایران و روس بشار الاسد کو فوجی، تکنیکی امداد بھی فراہم کرتے تھے۔ بلکہ روس نے تو باغیوں کو کچلنے کے لئے بشار الاسد کو زمینی مدد کے ساتھ ہوائی جنگی امداد بھی فراہم کی تاکہ بشار الاسد اپنے باغیوں کو کچلتے ہوئے اقتدار کو قائم رکھ سکیں اور شام روس و ایران کی پراکسی بن کر رہ سکے۔
اسی تناظر میں روس نے ملک شام میں فوجی تنصیبات بھی قائم کیں۔ چین بھی بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مل کر مختلف پراجیکٹس لگانے کا خواہاں تھا۔ دوسری طرف امریکہ و اتحادی باغیوں کو ہر قسم کی فوجی امداد، اسلحہ، میڈیکل و تمام وسائل فراہم کرتے رہے کہ روس، ایران، چین کو نیچا دکھایا جا سکے۔ گولان ہائیٹس کا شام و اسرائیل کے تاریخی تنازعہ کے تناظر میں اسرائیل بھی سٹرٹیجک لوکیشن اور شام کا اہم ہمسایہ ہونے کے باعث امریکہ و اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لئے برسر پیکار رہا اور اہم ترین کردار ادا کرتا رہا۔ اس اہم ترین کردار میں اسرائیل نے تمام تر وسائل فراہم کئے۔
مذہبی فرقہ واریت، انتہاپسند مذہبی عقائد، قومیت اور آمریت کے خلافت جدوجہد اور خاندانی نظام پر مبنی طویل آمریت کی حکومت شام میں باغیوں کے گروپوں کی تشکیل کے بنیادی محرک ہیں اور عام عوام الناس طویل ہوتی آمریت اور جنگ زدہ شام کے باعث الاسد سے بہت نالاں تھے۔ انتہاپسند مذہبی عقائد کے ترجمان داعش بھی شام ہی میں بنی، قومیت کی بنا پر کرد قوم پرست گروپ کا قیام ہوا اور اسی کرد گروپ کے خلاف ترکی شام میں امریکہ و اسرائیل کا اتحادی تھا اور شاید ابھی بھی ہو۔ درجن بھر کے قریب باغیوں کے گروپوں نے بشار الاسد کا تمام ملک پر کنٹرول بہت پہلے ہی ختم کر دیا تھا۔
اگر شام کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان اور شام کے حالات میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے کہ امریکہ و اتحادیوں کے افغانستان سے انخلاء پر جو حالات افغانستان میں قابض فورسز کے تھے کم و بیش انہی حالات کی طرح بشار الاسد محض دارالحکومت دمشق پر قابض تھا۔ جبکہ شام کے طول و عرض پر باغیوں گروپس اپنے اپنے علاقے کو اپنے اپنے طور چلا رہے تھے۔ یعنی دارالحکومت اور دو تین اہم شہروں میں اسد براجمان تھا جبکہ باقی کے شام کے طول و عرض کو باغیوں کے گروپوں نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔
کچھ دن قبل عجب طور واقعات رونما ہوئے۔ لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے مابین سیز فائر طے پانے کے اگلے ہی دن باغیوں کے گروپوں نے شام کے دارالحکومت کی طرف مسلح چڑھائی شروع کر دی۔ تحریر الشام نامی گروپ باغیوں کے گروپوں میں سب سے بڑا اور فعال گروپ اس مہم جوئی کو لیڈ کر رہا تھا۔ تحریر الشام گروپ کے سربراہ ال جولانی نے محض تیس گھنٹوں کے اندر شام کے تینوں اہم شہر دارالحکومت سمیت مسلح ساتھیوں سمیت اپنے تحت کر لئیے۔ اس تمام کاروائی میں اسد حکومت کی افواج نے باغیوں کے خلاف بالکل بھی مزاحمت نہ کی بلکہ ہتھیار اور فوجی تنصیبات چھوڑ کر مغرب میں چلے گئے۔
ان اہم تیس گھنٹوں میں الاسد روس کے ذریعے ڈیل کرکے امریکہ و اسرائیل سے محفوظ اخراج کے تحت غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ماسکو چلا گیا۔ یوں الاسد کے اکسٹھ سالہ طویل آمریت کا خاتمہ ہوا۔ شام کے لوگوں نے آمریت کے خاتمے پر جیلوں میں قید لوگوں کو آزاد کیا اس اہم موقع پر شام کے عوام کے جذبات دیدنی تھے کہ گویا منزل مل گئی اور اب شام امن محبت اور ترقی کی جانب جانے گا۔
مگر کیا سب ایسے ہی ہوگا حقائق اس کے بر عکس ہیں اسرائیل نے اس سب کے دوران اپنی فوجیں شام کے قبضہ کئیے ہوئے علاقہ گولان ہائیٹس میں لگا دیں۔ بلکہ جب دارالحکومت دمشق میں انتقال اقتدار کا اہم موقع ہے اسرائیل نے تمام شامی حکومت کی فوجی تنصیبات پر پانچ سو سے زائد فضائی حملے کرکے شام کی تمام نیول و فوجی تنصیبات کو بالکل تباہ و برباد کر دیا۔ اسرائیل تو گویا ایسے کسی اہم موقع کی تاک میں تھا یا جیو پولیٹکس کے بساط پر نئی چال کے تحت اسرائیل نے شام کی بے ضرر فوجی تنصیبات کو بالکل بے کار کر دیا۔
اسرائیل نے محض اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گولان ہائیٹس سے آگے بڑھ کر مزید پچس کلومیٹر تک کا علاقہ فوج لگا کر قبضہ کر لیا اور یوں اسرائیلی ٹینکس دمشق سے محض پچس کلومیٹر دور رہ گئے۔ گولان ہائیٹس کا علاقہ اقوام متحدہ کے مطابق متنازعہ اور بیشتر اقوام متحدہ مبصرین اور تاریخ کے مطابق شام کا ہے۔ 1967 میں اسرائیل نے گولان ہائیٹس کا علاقہ قبضہ کیا تھا۔ اسرائیل کو گولان ہائیٹس کا علاقہ سٹرٹیجک لوکیشن اور میٹھے پانی کے لئے چاہیے۔ کیوں کہ گولان ہائیٹس میں موجود میٹھے پانی کے ذخائر اسرائیل کے لئے میٹھے پانی کا واحد ذریعہ ہیں۔
شام میں انتقال اقتدار کے اہم اور نازک موقع پر اسرائیل کے غاصبانہ عزائم اور ان عزائم پر عالمی برداری و طاقتوں کی خاموشی اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر پھیلانے میں مددگار ہیں۔ شام میں انتقال اقتدار کے اہم موقع پر فوجی تنصیبات سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اسرائیلی افواج کا مزید علاقہ پر قبضہ کر لینا۔
باغیوں کے گروپوں کو ال جولانی کس طرح سے شرکت اقتدار میں لائیں گے؟ نظام حکومت کیا ہوگا؟ حکومت بنانے والے اسرائیل کے ساتھ معاملات کیسے حل کریں گے؟ حکومت بنانے والے عالمی طاقتوں کے میدان جنگ شام کو امن کی شام میں کیسے تبدیل کریں گے؟ اور کیا حصول اقتدار، قومیت، مذہبی فرقہ واریت پر مبنی باغیوں کے گروپوں کے درمیان معاملات آسان اور فہم رہیں گے کہ شام میں نئی صبح ہو سکے یا ان باغیوں کے گروپوں میں عالمی طاقتیں مزید تقسیم پیدا کرکے ملک شام میں شام کو مزید گہرا کر دیں گے؟ اور سب سے اہم انٹرنیشنل میڈیا میں شام کے ٹکڑے ہونے اور کئی ممالک کے بنائے جانے پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ کیا ایک ملک جو پہلے ہی جنگ زدہ حالات میں ہے اس ملک کو مزید تقسیم کر دینا مناسب ہوگا یا جیو پولیٹکس کی بساط پر ایک نئی چال ہوگی؟
قارئین گرامی تاریخ انسانی بڑی واضح اور سنجیدہ ہے کہ جو قومیں اپنے دفاع اور مضبوط افواج کے نظریات کو چھوڑ دیتی ہیں تو بالآخر ختم ہو جاتی ہیں اور عصر حاضر یعنی گلوبل ورلڈ میں قومیت وطن کی بنیاد پر ہی ہوتی ہےتو لہذا دفاع پاکستان کو مزید مضبوط بنانا اہم و کارگر ہوگا۔