Israeli Wazir e Azam o Wazir e Difa Ke Warrant Giraftari
اسرائیلی وزیر اعظم و وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری

دوسری عالمی جنگ کے سرگرم و متحرک محرکات میں طاقت و اختیار کا کمزور و ناتواں پر بے دریغ استعمال تھا۔ آج کے عالمی حالات کا معروضی و مستند جائزہ لیا جائے تو گزشتہ دو ہفتے عالمی حالات میں اہم و باعث تبدیلی واقعات سے بھر پور تھے۔ ان واقعات میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کو فلسطین و غزہ کے جنگی جرائم کے ذمہ داران ہونے کے باعث گرفتاری وارنٹ جاری کرنا چونکا دینے اور اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا اسرائیلی وزیر اعظم و وزیر دفاع کے گرفتاری وارنٹ جاری کرنا اسرائیل کے غزہ میں نسل کشی اور تاریخ انسانی کے بد ترین جنگی جرائم کو روکنے کے لئے باقاعدہ عملی اقدام ہے۔
گو کہ اسرائیل و امریکہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہر ممکنہ حد تک برسر اقدامات رہیں گے مگر انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا فیصلہ طویل فہرست اسرائیلی جنگی جرائم کی شدت کو شرح دینے، عالمی میڈیا میں زیر بحث لانے اور اسرائیلی مظالم کو دنیا میں نمایاں کرنے میں اہم ترین ہے کیونکہ امریکہ کا اقوام متحدہ اور ذیلی اداروں پر اثر و رسوخ ہونے کے باوجود انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے اسرائیل کے خلاف فیصلہ آنا اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلانت کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا اسرائیل و امریکہ کے مشرق وسطی کو جنگ میں جھونکنا یا جنگ کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے مشرق وسطی کو جنگ میں جھونکنے کے خلاف اقوام متحدہ کے فورم پر باقاعدہ عملی قدم ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا یہ عملی قدم گو اسرائیلی وزیر اعظم و وزیر دفاع کو گرفتار تو شاید نہ کر سکے مگر اسرائیلی فوج کی غزہ میں نسل کشی و بد ترین انسانی جنگی جرائم کو روکنے میں اقوام عالم کی جانب سے ایک واضح اور سنجیدہ عمل درآمد ہے۔ جو کہ عالمی سطح پر تا حال قبل ازیں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ فیصلہ نہیں دیکھا گیا۔ قبل ازیں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے پیوٹن کے گرفتاری وارنٹ بھی جاری کئے تھے مگر پیوٹن پر لگے الزامات کے مطابق وہ یوکرائن جنگ میں بچوں کو اغوا کرکے اور علاقوں میں منتقل کر رہے تھے مگر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلانت پر لگے چارج شیٹ میں جنگی گناہوں و جرائم کی فہرست طویل و سنگین ترین ہے اور تاریخ انسانی کے بد ترین انسانی استحصال و نسل کشی پر مبنی ہے۔
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کا فیصلہ تین ججز کے متفقہ فیصلے پر مشتمل تھا، فیصلہ پر عملدرآمد عالمی حالات میں جنگوں کے بڑھتے امکانات و وقوع پذیر واقعات کی روک تھام اور دنیا کے امن کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ فیصلے کے تناظر کو سمجھنے کے لئے اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بپا کی گئی منظم نسل کشی کو جامع بنانے کے لئے گئے تاریخ انسانی کی ہولناک و شدید ترین بم باری کی وجہ سے چالیس ہزار سے زائد غزہ کے معصوم و بے گناہ و نہتے شہریوں کا قتل عام، پندرہ ہزار سے زائد معصوم و نہتے بچوں کا قتل عام، ڈیڑھ سو سے زائد صحافیوں کا غزہ میں چن چن کر قتل تاکہ حقائق کی عالمی میڈیا تک رسائی ختم کی جاسکے اور دو سے تین سو کے درمیان انسانی امدادی سرگرمیوں کے کارکنوں کو جان بوجھ کر قتل عام کرنا کہ غزہ کیلئے امدادی کارکنوں و امدادی کاروائیوں کو روکا جا سکے، غزہ میں بنیادی ترین انسانی حقوق کی تمام ممکن خلاف ورزیاں آزمائی گئیں جن میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے فیصلے کے مطابق غزہ میں خوراک و انسانی ادویات کی فراہمی کو اسرائیلی وزیر اعظم کی سر پرستی و ہدایات کے مطابق روکا گیا تاکہ نسل کشی کو منظم و مربوط بنیادیں فراہم کی جا سکیں۔
جنگ محض یہاں تک نہیں رہی بلکہ نوع انسانی کے شرمناک ترین انسانی حقوق کی پامالی کی انتہاوں میں پناہ گزین کیمپوں اور سہولیات و ادویات سے عاری اسپتالوں خاص کر الشفا اور النصیر جیسے اسپتالوں کو علاج و زخمیوں کو زندگی فراہم کرنے سے روکنے کے لئے میزائلوں اور ہر قسم بمباری سے تختہ مشق بنایا گیا۔
جنگی جرائم و صہیونی فوجوں کے مظالم کی انتہا پسندی یہاں پر بھی نہ رکی اور غزہ میں انسانی ڈھال کو جنگ میں استعمال کرنے کے صدیوں پرانے تہذیب سے عاری طریقے بھی آزمائے گئے۔ جن میں صہیونی فوجیں غزہ کے نہتے و معصوم شہریوں کو ٹینکوں کے آگے باندھ کر جنگ زدہ علاقوں میں گشت کرتے تھے کہ حملہ آوروں کے لئے انسانی ڈھال کا بندوبست کیا جا سکے اور غزہ و فلسطین میں مزاحمت کرنے والوں کو تشہیر کرکے دہشت زدہ و خوفناک انجام سے دوچار کیا جا سکے۔ اسی طرح غزہ کی نہتے و معصوم شہریوں کو بم باندھ کر زیر زمین سرنگوں میں بھی زبردستی دھکیلا گیا کہ مزاحمت کار حماس کے کارکنوں کو ان کے شہریوں کے ذریعے ہی نقصان پہنچایا جا سکے۔ فیصلہ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع گیلانت نے غزہ میں پانی کی فراہمی بند کرنے کو بھی یقینی بنایا۔
قارئین گرامی اسرائیل کے جنگی جرائم کی فہرست بہت طویل و سنگین ہے جن کی وجہ سے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے اسرائیلی وزیر اعظم و وزیر دفاع کو چارج شیٹ لگائی اور گرفتاری وارنٹ جاری کئے اگر انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے فیصلے کے تناظر کو گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ صورت حال اخذ شدہ ہے کہ صہیونی فوجوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کی ایما پر غزہ و لبنان میں تاریخ انسانی کا بد ترین نسل کشی اور موت و جنگ کا انعقاد کیا۔
اسرائیل فوجوں کے مظالم کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھئے، 29 جنوری 2024 کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے تمام شہریوں کو شمالی علاقوں سے نکل جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی رہائشی عمارتوں پر اندھا دھند بمباری شروع کر دی۔ بمباری کی وجہ سے سیکڑوں فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر شہید ہونے لگے۔ اس دوران چھ افراد پر مشتمل ایک خاندان کسی طریقے سے پٹرول کا بندوبست کرکے ایک پرانی کار پر اسرائیلی فورسز کے بتائے ہوئے محفوظ راستے پر دوسرے شہر کی طرف جانے لگے کیوں کہ اسرائیلی فورسز نے ہی مجوزہ راستہ تعین کیا تھا کہ راستہ بم باری سے محفوظ رہے گا مگر چھ افراد پر مشتمل خاندان کی کار پر شدید بمباری کی گئی اور ایک بچی کے سوا تمام خاندان بم باری کی وجہ سے شہید ہوگیا مگر زخمی بچی نے لاشوں اور بم باری میں گھرے ہوئے کسی طریقے سے ریسکیو اداروں کو امداد کے لئے کال کی جو کہ ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔
ایک دن بعد موقع پر پہنچنے والے ریسکیو و امدادی کارکنوں کو دیکھتے ہی اسرائیلی فورسز نے شدید بمباری کرکے قتل کر دیا اور میڈیکل ریسکیو کے لئے کال کرتی معصوم بچی رجب کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ سہمی ہوئی بچی رجب کی ریکارڈ ہوئی کال کے مطابق اسرائیلی ٹینکس اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ رجب نے دوران کال انتہائی خوفزدہ آواز میں چچا، چچی والد اور خاندان کے دیگر افراد کی کٹی پھٹی لاشوں اور اپنے جسم سے بہتے خون کے متعلق بھی بتایا۔
رجب کی یہ کال کسی طرح انٹرنیشنل میڈیا میں لیک ہوگئی اور اس کال ریکارڈنگ نے اسرائیل کے جنگی جرائم کو انٹرنیشنل میڈیا میں بے نقاب کر دیا اور انٹرنیشنل میڈیا میں کال ریکارڈنگ نے ہنگامہ بپا کر دیا۔ رجب کی یہی کال ریکارڈنگ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں بھی پیش کی گئی۔ اسی طرح کی لا تعداد دیگر ثبوت بھی انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے پیش کئے گئے جن کی بنا پر عدالت کو فیصلہ دینے میں آسانی ہوئی۔ گو کہ امریکہ و اسرائیل نے بھرپور کوشش کے تحت پراسیکیوٹر اور ججز کو متنازعہ بنانے کی ہر ممکن سرگرمی کی مگر فیصلہ کو نہ روک سکے۔
اسرائیلی وزیر اعظم و وزیر دفاع کو وار کریمینلز ڈیکلیر کرنے میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کو اس لئے بھی سہولت رہی کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں میڈیکل سہولیات کو منظم طور ختم کیا اور میڈیکل سپلائی کو ممکن نہ ہونے دیا۔ غزہ میں زخمیوں کے آپریشن بے ہوشی کی ادویات نہ ہونے کے باعث بغیر بے ہوشی کے کئے گئے اور بعض اوقات صدیوں پرانے طریقے کے تحت آپریشن کرنے کیلئے زخمیوں کو بے ہوشی کی ادویات نہ ہونے کے باعث سر پر گہری چوٹ لگا کر بے ہوش کرکے کئے گئے۔ گویا اسرائیلی فورسز نے تہذیب کے تمام لوازمات کو روندتے ہوئے غزہ میں پتھر کے دور سے بھی بد ترین دور قائم کیا۔
اسرائیلی وار کریمینلز کے بڑے گناہوں میں غزہ میں ڈیڑھ سو سے زائد صحافیوں کا چن چن کر قتل عام اور نشان عبرت بنانا ایک واضح اور مجرمانہ مقصد کے تحت تھا کہ غزہ میں نسل کشی کی مربوط و منظم کاروائی سے دنیا کو بے خبر رکھا جا سکے۔ مگر انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے سامنے صحافیوں کی اتنی بڑی تعداد کا قتل بھی رکھا گیا۔ جس نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کو فیصلے میں سہولت دی۔
اسرائیلی فورسز کی غزہ و فلسطین میں بپا کئے گئے مظالم و جنگی جرائم اور مذموم نسل کشی کو بیان کرنے کے لیے مکمل کتاب بھی لکھی جائے تو ناکافی و ناتمام ہوگی۔ غزہ و فلسطین میں قیام امن اور انسانی زندگی کو از سر نو بحال کرنے کے لئے سنجیدہ اور فوری اقدامات دنیا کے امن کے لیے بہت اہم ہیں۔ مشرق وسطی کے بگڑتے حالات خاص کر شام میں حلب کے گرد ونواح میں ہونے والے تازہ واقعات اور جنگ و جدل، روس یوکرائن تنازعہ اور فلسطین و غزہ کے نہتے و معصوم شہریوں پر طاقت کا بے دریغ و وحشیانہ استعمال عالمی امن کو تباہ حال کر رہے ہیں اور جنگوں کے امکانات و ماحول کو ساز گار بنا رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتے عالمی حالات و واقعات کے تحت پاکستان کے دفاع کو مزید مضبوط بنانا اہم و کارگر ہوگا۔