Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Iqbal
  4. Faisla Kun Waqat

Faisla Kun Waqat

فیصلہ کن وقت

دنیا کی تاریخ میں آپ کا مقام کیا ہوگا یہ کوئی اور نہیں آپ خود ہی طے کرتے ہیں۔ تاریخ میں درج ہونے کا قانون بہت سادہ ہے کہ جو چاہیے ہوگا اسی کی کوشش کریں گے۔ وہی کوشش پہلے قسمت پھر تقدیر اور پھر تاریخ کا حصہ بنے گی۔ جنگوں سے اجتناب میں امن اور دنیا کی بقا و ترقی ہے مگر وار کریمینلز جنگ اور امن اپنی شرائط پر طے کرنا چاہتے ہیں۔

جب ہمسائیگی (غزہ) میں روزانہ نسل کشی ہو رہی ہو، بارود برسات کی طرح روزانہ برسے اور بارود کی اس برسات پر گہری خاموشی ہو۔ کہتے ہیں کہ خاموشی اثبات ہوتی ہے! بہرحال یہ خاموشی گناہ آلود اسرائیل کو مزید شہہ دیتی ہے اور 9 ستمبر دوپہر میں ساڑھے تین بجے کے اردگرد اسرائیلی فضائیہ کے ایف 35 قطر کے اہم ترین شہر دوحہ کے ڈپلومیٹک انکلیو میں مسلسل دس منٹ تک بمباری کرتے ہیں اور دوبارہ اسرائیل واپس چلے جاتے ہیں۔

اسرائیلی طیارے مطلوبہ ٹارگٹ پر دس راکٹ داغتے ہیں اور ٹارگٹڈ مقام کو مکمل تباہ کرکے ہی واپس جاتے ہیں۔ دوحہ مڈل ایسٹ کا سب سے اہم ٹرانزٹ شہر ہے جو روزانہ سیکڑوں فلائٹس اور ہزاروں مسافروں کا استقبال کرتا ہے جن کی منزل مشرق تا مغرب ہوتی ہے۔ قطر ائیر لائنز دنیا کی بڑی ائیر لائنز میں شمار کی جاتی ہے۔ اس قدر مصروف ائیر سپیس میں سویلین طیاروں کی موجودگی میں اسرائیلی طیاروں کا آنا اور بمباری کرنا ارد گرد واقع گلوبل ویلج اور دنیا کے امن کے لیے کافی معنی خیز ہے۔

قارئین گرامی قطر ائیر فورس انتہائی طاقتور اور مضبوط جدید طیاروں اور فضائی ڈیفنس سسٹم سے لیس فضائیہ فورس ہے۔ 31 لاکھ آبادی والے قطر نے امریکہ اور یورپ کی اسلحہ مارکیٹوں سے اچھی خاصی شاپنگ کر رکھی ہے۔

قطر اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے 1992 سے قائم ہیں۔ انہی دفاعی معاہدوں کے باعث امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر سینٹکام بھی قطر العدید بیس پر قائم ہے۔ قطر اور امریکہ کے دفاعی معاہدوں کی کوئی بھی تفصیلات پبلک نہیں ہیں۔ اسرائیلی سٹرائیک کے بعد قطر کے معاملات سے لگ رہا ہے کہ ان دفاعی معاہدوں میں کافی کچھ طے ہے۔ کیوں کہ اسرائیلی سٹرائیک کے دوران امریکہ قطر کو کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکا اور انہی دفاعی معاہدوں کے باعث قطر نے امریکہ سے اچھے خاصے گلے شکوے کیے۔ کیا اتنی جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں امریکہ کو اس حملے کا پتہ نہیں چل سکا؟ کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ بہرحال اس پر مغربی میڈیا کی طرف سے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔

قارئین گرامی ایک مخصوص ترتیب کو دیکھیں 1967 میں اسرائیل مصر اور شام کی فضائیہ اور افواج تباہ کر دیتا ہے۔ 1981 میں اسرائیل عراق کے نیوکلیئر پلانٹس کو فضائی حملوں میں بالکل ختم کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد نائن الیون کے بعد تا دم مڈل ایسٹ میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا ایک طویل سلسلہ، اب تازہ ترین شام، لبنان، اردن اور گزرے ماہ جون میں اسرائیل ایران جنگ، غزہ میں مسلسل تین سال سے مسلم نسل کشی اور اب قطر پر فضائیہ کے حملے۔ یہ تمام بڑا سادہ اور واضح ہے آج مڈل ایسٹ اور خاص طور پر عرب دنیا اور مسلم ممالک کو طے کرنا ہوگا آج کے فیصلہ کن وقت میں عرب ممالک کو فیصلہ لینا ہوگا کہ مڈل ایسٹ کو کب تک جنگوں میں جھونکا جائے گا؟

سرحدوں کی خلاف ورزی، انسانی قتل، انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے مطابق نیتن یاہو جنگی جرائم کا مرتکب وار کریمینل، غزہ میں نسل کشی، ایران، لبنان و دیگر تمام مڈل ایسٹ ممالک کے اندر بمباری کے تحت اسرائیل اور نیتن یاہو کے خلاف یو این چارٹر کے مطابق چارج ہونا چاہیے۔ مگر عرب لیڈر شپ کیا اتنا سخت موقف اپنا سکتے ہیں؟ غزہ، ایران، لبنان، شام وغیرہ وغیرہ پر خاموش رہنے والے کیا اب بھی خاموش رہیں گے؟ یہ لازم نہیں کہ ملٹری سطح پر ہی جواب دیا جائے آسودہ حال تیل و کاروبار کی دولت سے مالامال عرب خاص طور پر سعودی عرب، قطر، یو اے ای، کویت، عمان وغیرہ سفارتی سطح پر دنیا میں بھونچال لا سکتے ہیں اور اسرائیل و اسرائیل کے سرپرستوں کو یو این چارٹر قوانین کے تحت تمام مسائل کو حل کرنے پر قائل و مسائل کو حل کرنے پر آمادہ و مجبور کر سکتے ہیں۔

بہرطور قارئین گرامی تاریخ کے اس اہم اور نازک مقام پر قطر و اتحادیوں کے لئے آج فیصلہ کن وقت ہے کہ فیصلہ لیا جائے۔ مزید تاخیر مزید حملوں اور خود مختاری پر سمجھوتہ کا باعث ہوگی۔ اگر یہ فیصلہ کن وقت گزر گیا تو مڈل ایسٹ میں اسرائیل اپنی ملٹری پاور کے ذریعے تمام فیصلے کرنے کی رسم کو مضبوط کرتا چلا جائے گا اور شاید یہی طریقہ ہے جو اسرائیل کو گریٹر اسرائیل ہی بنا دے گا۔

قارئین گرامی قطر پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان نے سلامتی کونسل اقوام متحدہ اور متعلقہ ہر فورم پر انتہائی سخت موقف دیا ہے اور امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے کہ اگر آج اس اہم ترین فیصلہ کن وقت پر اہم فیصلہ نہ لیا گیا تو نقصان ہو سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عرب لیڈر شپ اہم و مضبوط فیصلے کر سکتی ہے؟ یہاں پر بھی عرب لیڈر شپ کو مضبوط اور اہم فیصلہ لینے سے روکے جانے کے لئے اسرائیل و سر پرستوں کی جانب سے حکومتیں گرانے، سازشیں، رجیم چینج وغیرہ جیسے منصوبے لانچ کئے جا سکتے ہیں کہ عرب لیڈرز ایسے کسی بھی فیصلہ سے دور رہیں۔ مگر وقت متقاضی ہے کہ عرب ممالک کے رہنماؤں کو فیصلہ کن وقت میں اتحادیوں کو باہم جوڑ کر بزور مسلم امہ طاقت و اتحادیوں اور یو این چارٹر کے ذریعے مغربی ممالک کو آمادہ کرنا چاہیے کہ اسرائیل کو سفارتی آداب، انٹرنیشنل باڈرز کا احترام، غزہ میں مسلم نسل کشی کا فی الفور خاتمہ، فلسطینی ریاست کا قیام اور فلسطین نیشنلز کے لئے تمام انسانی حقوق کی فراہمی بروقت یقینی بنائیں تاکہ گلوبل ویلج آگے بڑھ سکے وگرنہ مڈل ایسٹ اور متصل علاقوں میں خون بہنے کا سلسلہ پھیلتا رہے گا۔

اوپر بتائے گئے تمام حالات و واقعات و تناظر میں پاکستان کے نظام دفاع کو مزید مربوط اور مضبوط بنانا وقت کی سب سے بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے کہ اسرائیل نے قطر حملوں کے بعد پاکستان کا بھی ذکر کیا ہے۔ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع اور دفاعی اداروں کو مزید مضبوط بنانے کے لئے تمام تر وسائل و توانائی کو بروئے کار لایا جائے اور ترجیح دفاع وطن ہونا چاہیے۔

Check Also

6 Nukaat Aur Markaz, Kuch Nahi Badla

By Muhammad Aamir Hussaini