Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Iqbal
  4. Bunyan Marsoos Doim?

Bunyan Marsoos Doim?

بنیان مرصوص دوئم؟

جنگیں تاریخ انسانی کے اہم ترین واقعات شمار کی جاتی ہیں بلکہ جنگیں ہی شاید قوموں کی تاریخ کے اہم ترین موڑ ہیں۔ طاقت سے مرعوب فطرت انسانی طاقت کے مظاہرے کی طلبگار رہتی ہے کیوں کہ طاقت اظہار کی طلبگار ہے۔ طاقت کا اظہار ہی تو جنگوں کا بپا ہونا ہے اور یہی وہ مقام ہے جو انسانی معاشرے کو جنگوں میں جھونک دیتا ہے۔ خیر یہ وہ بنیادی طریقہ کار یا طاقت کا فلسفہ ہے جو دنیا میں جنگوں کے وقوع پذیر ہونے کا باعث ہے۔

مئی میں ہونے والی پاکستان بھارت مختصر مگر ماڈرن وارفئیر میں بھارت کو عالمی سطح پر زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا یہ تمام یعنی بھارت کی شکست کیسے ہوئی یہ الگ سے ایک مفصل اور طویل موضوع ہے جس کی پرتیں پھر کبھی کھولیں گے۔ مگر مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد سے بھارتی وزیراعظم آپریشن سندور میں محض ایک وقتی وقفہ اور آپریشن سندور کو دوبارہ شروع کرنے اور پاکستان کی حکومت و عوام کو دھمکانے کے بیانات مسلسل چلا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے یہ بیانات اور کیا واقعی پاکستان اور بھارت مزید ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ بھارتی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے مسلسل جنگی بیانات کیا جنوبی ایشیا کو ایک اور بڑی جنگ کے قریب لا رہے ہیں؟ اس اہم ترین سوال کے جواب کے لئے حالات کو دیکھتے ہیں۔

سیاسی دہشتگردی اور انتہا پسند ہندوتوا نظریے کی قائل آر ایس ایس بنیادی طور پر بی جے پی کو ہیک کر چکی ہے اور مئی میں ہونے والی جنگ اسی نظریے اور سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ آر ایس ایس کے کرتا دھرتا موہن بھگوت مئی کی جنگ میں زبردست ہزیمت کے بعد کچھ دن قبل بھارت میں ایک عوامی اجتماع میں پچھتر سال کو پہنچنے والے شخص کو ریٹائر منٹ کا مشورہ دے چکے ہیں یاد رہے کہ موہن بھگوت ہی آر ایس ایس کے فیصلہ ساز اور طاقتور ترین شخص ہیں بلکہ شاید پورے بھارت کے بھی۔ وزیراعظم کا تقرر اور اسی جیسے دیگر تمام اہم خارجہ و دفاعی فیصلے بھی موہن بھگوت طے کرتے ہیں۔

موہن بھگوت کا بھرے عوامی اجتماع میں پچھتر سال کے بعد ریٹائر منٹ کا مشورہ نام لئے بغیر بھارتی وزیراعظم مودی کے لئے ہی تھا۔ یہیں ایک اور اہم فیکٹ موہن بھگوت خود بھی پچھتر سال کے ہونے والے ہیں تو کیا ریٹائرمنٹ کا یہ مشورہ وہ خود کو بھی دیں گے؟ بہرحال آر ایس ایس کے ہیڈ کا بھارتی وزیر اعظم کو ایسا مشورہ دینا بہت واضح ہے کہ وہ جنگ کے بعد بھارت کی ہزیمت، ہندوتوا ایجنڈے کے پھیلاو میں ناکامی اور آنے والے بھارتی ریاستوں کے مختلف الیکشن میں ہونے والی متوقع ناکامی کا ذمہ دار وزیراعظم کی ناکام پالیسیوں اور وزیراعظم کو سمجھتے ہیں۔

ناکامی اور ہزیمت کے داغ تو شاید سیاستدان آسانی سے ہضم کر لیتے ہیں مگر سیاست کا زوال سیاستدانوں کو ہرگز کسی طور اور کسی قیمت قبول نہیں ہوتا۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کے پاس آر ایس ایس کے سربراہ کے دھمکی نما مشورہ کے بعد اقتدار کو طول اور الیکشن میں مطلوبہ رزلٹ حاصل کرنا خاصہ مشکل ہو چکا ہے اور ان دونوں اہم ٹاسک کے لئے بھارتی وزیر اعظم کے تھنک ٹینکس کے پاس دوبارہ پاک بھارت تنازعہ کو بڑھانے اور جنگ کے ذریعے بھارت کو کوئی ہائی ویلیو جنگی اچیومنٹ دلوانا ہی شاید آخری حل ہوگا۔ کیوں کہ مئی سے قبل بھی ان تھنک ٹینکس نے الیکشن میں جنگ کے حالات کو ووٹ حاصل کرنے کا ٹول اور ہندوتوا نظریے کے پھیلاو کی خاطر ہی تو مئی والی جنگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی ہزیمت کو ختم کرنے کے لئے یہی تھنک ٹینکس مودی انتظامیہ کو ایک اور جنگ کا ہی پلان دیں گے۔ مگر اس آنے والی جنگ کے لئے بھارتی ملٹری آپریشنل سطح پر کتنی تیار ہوگی اور کیا بھارتی ملٹری بی جے پی حکومت کو ایک اور ایڈونچر میں ناکامی کے امکانات دکھا کر سمجھا پائے گی؟ بھارتی ملٹری جذبات کی سطح پر تو زخم خوردہ ہونے کے باعث جنگی فتح کے لیے بے قرار ہوگی مگر آپریشنل سطح پر رافیل و دیگر طیاروں جیسے شہرہ آفاق واقعات کی ہزیمت کو دوبارہ نہیں چاہے گی۔

آپریشنل سطح پر بھارتی ملٹری کے لئے وار ڈاکٹرائن تبدیل کرنا اور نقصان کھائے بغیر ہائی ویلیو وار اچیومنٹ حاصل کرنا فوری طور پر ممکن نہیں ہوگا بلکہ شاید اس نئے معرکے کی تیاری کے لیے وارفئیر ٹیکنالوجی کا حصول اور ماڈرن ملٹری ہارڈویئر(طیارے، ائیر ڈیفنس سسٹم وغیرہ) کو آپریشنل سطح تک لانے میں سالوں کا عرصہ درکار ہوگا۔ تو بھارتی ملٹری کو سالوں چاہیے مگر سیاست دانوں کی داو پر لگی سیاست اور مضبوط سیاسی نظام کے آگے بھارتی ملٹری کتنی مزاحمت کر سکتی ہے؟ ماضی میں تو بلکہ فروری 2019 اور مئی 2025 کو دیکھیں تو بھارتی ملٹری بیورو کریسی بھارتی آر ایس ایس اور بھارتی وزیراعظم کی تباہ کن جنگی پالیسیوں میں محض خاموش کردار اور نقصان اٹھاتی نظر آتی ہے۔

آپریشن بنیان مرصوص کے بعد جیو پولیٹکس میں بھارت کا مسلسل گرتا ہوا گراف بھارت کے لئے روانہ کی بنیادوں پر مسائل پیدا کر رہا ہے۔ امریکن صدر کا 35 بار سے زائد پاک بھارت جنگ بندی کا ذکر کرنا اور اب تو کسی ملک کا نام لئے بغیر طیاروں کے گرنے کا ذکر کرنا بھارتی فیصلہ ساز وزیراعظم اور گودی میڈیا کے لئے سخت سبکی کا باعث ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کا امریکی ثالثی کے معاملے پر خاموش رہنا بھارتی عوام کے نزدیک بی جے پی کی ریٹنگ کو اور بھی گرا دیتی ہے اور اسی منظر نامے کے ساتھ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پچاس فیصد تک تجارتی ٹیرف بھارتی وزیر اعظم کو مزید بھی پریشان کن صورتحال میں مبتلا کر دیتے ہیں اور یہ تمام صورت حال ڈیڑھ ارب بھارتی عوام کے سامنے ہے۔

بھارتی ریاست بہار میں اکتوبر میں الیکشن شیڈول ہیں۔ ان الیکشن میں واضح برتری کے لئے ہی تو مئی میں بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے ساتھ جنگ کا اہتمام کیا تھا۔ مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کا ایک تناظر بھارت کا خود کو خطے میں سپر پاور اور تھانیدار کا سٹیٹس قرار دینا بھی تھا کہ امریکہ جیسی سپر پاورز بھارتی ملٹری مائٹ سے متاثر ہو کر بھارت کو سپیشل سٹیٹس دیں۔

بھارت جنوبی ایشیا، بحر ہند، ساوتھ چائنہ سی، بحیرہ عرب وغیرہ میں نیٹ سیکیورٹی پرووائیڈر کے طور پر ابھر سکے اور امریکہ چائنہ کے خلاف بھارت کو ایک اہم متبادل سمجھے اور دنیا بھی تسلیم کرے مگر مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ نے بھارت کے اوپر بیان کئے بیس سال کے میڈیا پروپیگنڈہ کے دنیا کے سامنے کھول کے رکھ دیا۔ تو بھارت جو کہ امریکہ کا کواڈ میں اور جنوب ایشیائی خطے میں بڑا ملٹری اتحادی ہے امریکہ و دیگر دنیا میں اپنے خود ساختہ سٹیٹس بحال کرنے کے لئے کسی بھی نئی جنگ کو شروع کرنے کا جذباتی اور احمقانہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ دنیا میں طاقت کا مظاہرہ کرکے مسلسل سپر پاور کے سٹیٹس پر ہی دکھا سکے۔

اوپر بتائے گئے بھارتی سیاسی، علاقائی، عالمی مقاصد و آر ایس ایس کی سیاسی دہشتگردی وہ کلیدی وجوہات ہیں جو کہ بھارت کی جنگی جنون میں مبتلا قیادت کو کسی بھی وقت ایک اور جنگ شروع کروانے کا باعث ہوں گی۔ ان حالات میں بھارتی ملٹری کی جنگی تیاری کی اہمیت کچھ کم ہو جاتی ہے اور جنوبی ایشیا کے ریجن میں دو ارب لوگوں کا مستقبل جنگ اور امن کے درمیان لٹکا ہوا واضح ہے۔ بلکہ انٹرنیشنل میڈیا تو نیوکلیئر یا اٹیمی وار پروجیکشن بارہا کر چکا ہے۔ بھارت کا یہ جنگی جنون نیوکلیئر جنگ کے تھریش ہولڈ لیول کو اور بھی کم کر دیتا ہے اور پاور پروجیکشن یعنی طاقت کے مظاہرے کا یہ جنون دو ارب سے زائد انسانوں کے مستقبل کو زیادہ غیر محفوظ اور غیر یقینی صورتحال میں لے جاتا ہے۔

آپریشن بنیان مرصوص کے بعد پاکستان کی جیو پولیٹیکل پوزیشن بہت مستحکم ہوئی ہے اور یہ استحکام رات کے اندھیرے میں پاکستان کے اوپر میزائل گرنے والوں (بھارت) کو کسی طور قبول نہیں، آج نہیں تو کل روایتی حریفوں کا یہ ٹکراو ضرور طے ہے جب تک دریاوں کے پانی، کشمیر، سیاچن، سر کریک اور انھی جیسے دوسرے مسائل کا حل نہیں ہوگا یہ تصادم جاری رہے گا کبھی سفارتی سطح پر تو کبھی ابلاغ میں اور کبھی میدان جنگ میں۔

پاکستان کے عوام کا اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ دفاعی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ دشمن اپنے ایجنڈا میں پاکستان کو ہڑپ اور قوم کو ختم کرکے سب کچھ ہندوتوا میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ تو مضبوط ترین دفاعی ادارے، ماڈرن وارفئیر ٹیکنالوجی اور ماڈرن ملٹری ہارڈویر مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان کے راہ کو ہموار کریں گے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr