Akhri Hal
آخری حل

چار فروری کو انٹرنیشنل میڈیا میں سب سے بڑی سٹوری اور ہیڈ لائن نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کا با ضابطہ اعلان تھا جو کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کیا تھا۔ چار فروری سے تاحال ٹرمپ کے غزہ کے قبضہ کے بیان کی بابت انٹرنیشنل میڈیا میں دنیا کے بیشتر ممالک، یو این او، عرب ممالک وغیرہ کی طرف سے فلسطینی ریاست کے لئے دو ریاستی حل کے حق میں اور غزہ پر امریکی قبضہ کے بیان کو مذمت کرتے اور سخت بیانات کا تبادلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضہ کے بیان کے اغراض و مقاصد اور حقائق کی بنا پر مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلسطین کے مغربی کنارے غزہ کو جغرافیائی سطح پر دیکھیں تو اکیس لاکھ نفوس کی مسلمان آبادی پر مشتمل غزہ کو حماس کی سرکوبی کے نام پر اسرائیلی افواج و اتحادیوں نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا مگر حماس کی مزاحمت کو ختم نہ کر سکے اور قیدیوں کے تبادلے و جنگ بندی کے معاہدے کے لئے اسرائیل کو بالآخر حماس سے ہی مذاکرات کرنے پڑے گو کہ ان مذاکرات اور قیدیوں تبادلے کے معاہدے پر اسرائیل و اتحادیوں کو اندرونی طور پر اور انٹرنیشنل میڈیا میں کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ اربوں ڈالر کی بمباری اور جنگی اخراجات کے باوجود بھی غزہ کی بلڈنگز اور انفراسٹرکچر کو تو توڑ دیا گیا مگر حماس کے نیٹ ورک کو ختم نہ کیا جا سکا۔
صہیونی اندرونی دباؤ کے باعث اسرائیلی وزیر اعظم اور اسی طاقتور امریکی صہیونی حلقوں کے دباؤ کے باعث اسرائیل و امریکہ نے حماس کو توڑنے اور اسرائیلی ریاست کی وسعت میں حائل دیگر ستر لاکھ کے قریب فلسطینی جو کہ موجودہ اسرائیل میں یروشلم اور ساوتھ بینک میں آباد ہیں کو مستقل بنیادوں پر فلسطین سے بے دخل کرنے کے منصوبے کو عمل پیرا کرنے کے لئے غزہ پر امریکی قبضہ کا بیان دیا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کا محض سیاسی بیان ہے اور ٹرمپ تو مشہور ہی ایسے بیانات کے لئے ہیں جبکہ ٹرمپ تو غزہ کی از سر نو تعمیر و ترقی اور جنگ بندی چاہتے ہیں۔ مگر حقائق برعکس و تلخ و تہذیب سے عاری ہیں۔
حقائق کے مطابق اربوں ڈالر کی بمباری و جنگ اور غزہ میں بلڈنگز و تعمیرات کو گرانا اس لئے اہم تھا کہ صہیونی ریاست کی غزہ میں تعمیر نو کیلئے لازم تھا کہ غزہ کو جب فلسطینی عوام سے خالی کروایا جائے تو لازم ہے کہ فلسطینی عوام کو اتنا مارا جائے کہ ملک سے بے دخل ہونے کو آسان آپشن و زندگی سمجھتے ہوئے غزہ کے عوام اپنی زمین چھوڑ جائیں اور زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے وطن بدری کو ہی ترجیح دیں۔
عالمی عدالت انصاف کے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع کو وار کریمینلز ڈیکلیر کرنے میں یہ تمام پہلو سامنے رکھے گئے تھے بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر تو خوراک اور پانی کو بھی غزہ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے اور خوراک و پانی کی کمی کو موت بانٹنے تک اور تاریخ انسانی کی سب سے ہولناک نسل کشی کے الزامات بھی عالمی عدالت انصاف میں لگاے گئے جن کا اسرائیل و امریکہ دفاع نہ کر سکے اور اسرائیلی وزیر اعظم وار کریمینل ڈیکلیر ہوئے۔
اندرونی صہیونی دباؤ اور حماس کا مکمل خاتمہ نہ کر سکنا اور سب سے بڑھ کر اسرائیلی ریاست کی وسعت و ستر لاکھ فلسطینی عربوں کا اسرائیلی ریاست سے انخلاء وہ محرکات ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کی حمایت یا دباؤ کی وجہ سے چار فروری کو ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ غزہ پر قبضہ کرنے کا با ضابطہ اعلان کیا۔ یاد رہے کہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ نے عالمی رہنماؤں میں سب سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں اور مشترکہ پریس کانفرنس کی اور بہت واضح روڈ میپ دیا جو کہ غزہ و فلسطین کے عرب عوام کے لیے بہت بھیانک ہے۔
ٹرمپ و اسرائیلی وزیر اعظم کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کی طرف سے مزید بھی کہا گیا کہ وہ غزہ کے عربوں کو مصر، اردن و دیگر قریبی ممالک میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے مصر و اردن کے ذمہ داران سے بھی بات کریں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ عربوں کو مصر و اردن میں ایڈجسٹ کرنے میں آسانی ہو سکے۔ ٹرمپ کی اس بات کا مطلب سادہ اور آسان ہے کہ اسرائیلی بمباری اور تقسیم کی ہوئی موت کے بعد ٹرمپ کا یہ مشورہ کہ فلسطینی غزہ کو چھوڑ دیں تو انہیں قریبی عرب علاقوں میں ہجرت کا موقعہ دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر اگر غزہ کے رہائشی انخلاء نہیں کرتے تو غزہ کے رہائشی پانی، خوراک کی کمی سے یا آسمان سے برستے کیمیائی ہتھیاروں و بموں سے مزید موت لینے کے لئے تیار رہیں۔
گویا کسی بستی میں زمین پر مستقل قابض ہونے کے لئے بستی میں بہت سوں کو نشان عبرت و موت دینے کے بعد بچ جانے والوں کو کہا جائے کہ بھاگ جاو تو بچ جانے والے محض بھاگنے ہی میں عافیت جانیں اور با آسانی اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔
ٹرمپ کا حالیہ بیان اور منصوبہ مشرق وسطی اور خاص طور پر فلسطین میں مزاحمت اور جنگ و جدل کو مزید پروان چڑھاے گا کیونکہ غزہ کی موجودہ صورتحال میں غزہ کے رہائشیوں کی گھروں میں واپسی کی ویڈیوز غزہ کے رہائشیوں کے عزائم کو واضح کر رہی ہیں کہ اتنا کچھ کھونے کے بعد بھی غزہ کے رہائشی انخلاء کو کسی بھی صورت قبول نہ کریں گے بلکہ مزاحمت کو ترجیح دیں گے۔ اس بات کو آپ یوں بھی جانئیے اور سمجھئے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی مسلمان نسل کشی مہم کے دوران اسرائیلی حکومت نے حماس کے رہنماؤں کے بارے معلومات دینے پر پچاس پچاس لاکھ ڈالر تک انعام رکھے مگر غزہ کے رہائشیوں نے موت کو قبول کیا مگر حماس رہنماؤں بارے کوئی ایک معلومات کسی نے بھی نہ دی۔ گویا یہ ایک خاموش تائید اور کھلا پیغام تھا۔
پراپرٹی ڈویلپمنٹ و ٹرمپ ٹاور کے لئے مشہور امریکی صدر ٹرمپ نے خوبصورت ساحلوں سے مزین فلسطین کے مغربی کنارے غزہ پٹی کو امریکی قبضے میں لینے اور اسرائیل کے ساتھ ملکر غزہ میں ایک خوبصورت شہر کی تشکیل دینے کے لئے غزہ کے رہائشیوں کو غزہ سے نکل جانے اور غزہ پر امریکی قبضہ کا اعلان کر دیا ہے اور فلسطین تنازعہ کا "آخری حل" قرار دیا ہے جبکہ غزہ کے اکیس لاکھ سے زائد رہائشی انخلاء کے بجائے لٹے پھٹے بھوک افلاس زدہ مگر تازہ جذبوں کے ہمراہ سیز فائر ہوتے ہی اپنے اپنے تباہ حال گھروں کے ملبوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے فلسطینی پرچموں کے ساتھ امنگوں کے ساتھ واپسی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں اسرائیل کے بعد امریکہ خود بھی مشرق وسطی میں فلسطین و غزہ میں جاری نسل کشی اور عربوں کے انخلاء کے لئے سرگرم عمل ہے تاکہ صہیونی ریاست کے پھیلاو کو چاہے جبری ہی کیوں نہ ہو ممکن کیا جا سکے۔