Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Fauji Adalten Aur Siasi Jamaten

Fauji Adalten Aur Siasi Jamaten

فوجی عدالتیں اور سیاسی جماعتیں

فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمات چلائے جانا، اس عمل کو جمہوریت کی دعوے دار جماعتوں کی طرف سے حمایت فراہم کیا جانا اور اس ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں پہ مقدمات چلائے جانے کے خلاف اپنے ہی فیصلے کے خلاف ایک دوسرے عدالتی بنچ کے ذریعے اور وہ بھی آئینی بنچ کے ذریعے فوجی عدالتوں کو شہریوں کو سزا سنائے جانے کی اجازت دینا چاہے وہ مشروط ہی کیوں نہ ہو "انتظامیہ اور عدلیہ" کی علیحدگی کے آئینی اور عدالتی فیصلوں کے خلاف ہے اور یہ جمہوریت پسندوں کے لیے ایک اور "ساز تاریخ سیاہ دن" ہے۔

جس طرح ماضی میں موجودہ معتوب جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ادریس خٹک کی جبری گمشدگی اور بعد ازاں ان کا فوجی عدالت کے ذریعے ٹرائل اور ان جیسے دیگر غیر قانونی اور غیر جمہوری عمل تھا اور پی ٹی آئی کی قیادت کی اس پر خاموشی مجرمانہ اور موقعہ پرستانہ عمل تھی ایسے ہی آج جن سیاسی جماعتوں کی قیادت 9 مئی کے واقعات میں مبینہ ملوث افراد پہ فوجی ٹرائل اور سزا کی حمایت کی ہے وہ بھی غیر جمہوری اور موقعہ پرستانہ عمل ہے۔

آج جو لوگ پی ٹی آئی کی اس وقت خاموشی کو بنیاد بناکر اس عمل کی حمایت کر رہے ہیں یا اس پہ خاموش ہیں وہ اتنے ہی غلط ہیں جتنی پی ٹی آئی کی قیادت تھی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا جب پاکستان کی سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کہ قیادت نے اپنے جمہوریت پسند ہونے کے دعوے کو عمل سے ثابت کرنے کی بجائے ذاتی انتقام، بدلے اور وقتی مفاد پرستی اور سب سے بڑھ کر متنازعہ انتخابی مینڈیٹ سے ملی حکومت کو ترجیح دی ہو اور اس ملک میں مسلسل اپنے آئینی کردار اور اختیار سے تجاوز کرنے اور سنگین ترین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے طالع آزما باوردی جرنیل شاہی کی تابعداری کی ہو۔

اس ملک کی پہلی حکمران جماعت مسلم لیگ کی حکومت نے 1948ء کو جب قلات ریاست پر فوج کشی کی اور وہاں کی منتخب قانون ساز اسمبلی کی قرارداد کو روندتے ہوئے ریاست قلات کو زبردستی اپنا حصہ بنایا تب بھی اس وقت موجود کسی جماعت نے اس عمل کی مذمت تک نہیں کی تھی اور نہ ہی اس فوج کشی کے دوران ریاست قلات کے شہریوں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے سے سنائی گئی سزاؤں کی مذمت کی تھی۔ جبکہ اس دوران جو شہری ماورائے عدالت قتل کیے گئے ان کا تو معاملہ ہی الگ تھا۔

اسی طرح 1950ء میں راولپنڈی سازش کیس کے لیے سپیشل ٹربیونل کا قیام اور اس ٹربیونل کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کے بنائے گئے مختلف محاذوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر جو مقدمات چلے اس کی بھی اکثر سیاسی جماعتوں نے حمایت کی تھی اور بہت سارے سیاسی جمہوری حلقے اس پر خاموش رہے تھے۔ یہی صورت حال 1950ء میں مشرقی بنگال میں فوج کشی کے وقت دیکھنے کو ملی تھی اس وقت بھی سیاسی کارکنوں کو "کمیونسٹ دہشت گرد" قرار دے کر ان پہ خصوصی فوجی ٹربیونل کے ذریعے مقدمات چلائے جانے اور ہزاروں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے اور پورے پورے گاوں جلا دیے جانے کے عمل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی تھی۔ ان واقعات کا ذکر اگر لیاقت علی خان کی کابینہ کے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل اپنے استعفے میں ذکر نہ کرتے اور وہ اپنا استعفا ایک کھلے خط کی شکل میں شایع نہ کرتے تو سیاسیات کے طالب علموں کو اس کا پتا ہی نہ چلتا۔

اسی طرح ایوب خان کے آمرانہ دور میں ایک بار پھر بلوچستان پر فوج کشی کی گئی اور وہاں بھی سویلینز پر فوجی عدالتوں نے مقدمات چلائے اور انھیں سزائیں سنائیں تھیں تب بھی پاکستان کے بے شمار جمہوریت پسند کہلانے والے سیاست دان اس عمل پہ یا تو خاموش رہے یا اس عمل کی حمایت کرتے پائے گئے۔ ایوب خان نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان اور ان کے دیگر سیاسی رہنماؤں و کارکنوں پہ ملک کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں "اگر تلہ سازش کیس" بنایا اور اس مقدمے میں نامزد سویلین افراد کے کا فوجی ٹرائل کیا اور اس فوجی مقدمے کو بھی کئی ایک سیاسی جماعتیں سپورٹ کر رہی تھیں۔

مارچ 1972ء کو اس وقت کی عام انتخابات کے نتائج میں اکثریتی جماعت بن کر ابھرنے والی عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے کر پورے مشرقی بنگال میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور ہزاروں سیاسی کارکن، طالب علم، دانشور، ادیب، شاعر اور عام شہری ماورائے عدالت قتل کردیے گئے جب کہ ہزاروں شہری جبری گمشدہ بنائے گئے اور ہزاروں شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا اعلان کیا گیا۔ اس بہیمانہ بربریت و نسل کشی پر مبنی فوجی آپریشن اور ملٹری ٹرائلز کو مغربی پاکستان کی سب سے بڑی منتخب اکثریتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت کے پنجاب، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبے کے ممتاز سیاسی رہنماؤں کی اور ان کے پنجاب میں اکثر حامیوں کی حمایت حاصل تھی۔ جبکہ دائیں بازو کی اکثر سیاسی جماعتیں جو جمہوریت پسند ہونے کی دعوے دار تھیں نے بھی فوجی جنتا کے اس عمل کی حمایت کی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی جو مغربی پاکستان میں دو صوبوں میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی اس کی قیادت نے بھی اس آپریشن پر زبانی کلامی بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔ اس نے اس بنگالیوں کی نسل کشی پہ کوئی تحریک نہیں چلائی تھی۔

پھر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلوچستان پر فوج کشی کی اور نیپ کی قیادت سمیت 300 افراد پر سازش کا الزام لگایا اور آئین میں ایک غیر جمہوری ترمیم کرکے سویلین پر فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمات چلائے جانے اور سپیشل ٹربیونل بناکر حیدرآباد سازش کیس چلائے جانے جیسے اقدامات کیے تھے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کے حامی ایک بار پھر فوج کشی، بلوچ نسل کشی کی حمایت اور دفاع کے مرتکب پائے گئے۔

اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں جو پی این اے کے نام سے بعد ازاں 9 جماعتی اتحاد کی شکل میں سامنے آئیں اس آپریشن کی مخالفت کر رہی تھیں اور سویلین کے فوجی ٹرائل پہ سراپا احتجاج تھیں میں سے کئی ایک بعد ازاں نہ صرف جنرل ضیاء الحق کے فوجی مارشل لاء کی حامی ہوگئیں بلکہ انھوں نے فوجی عدالتوں کے قیام اور شہریوں کو سزا سنائے جانے کے عمل کی حمایت کی تھی۔

جنرل مشرف کے دور میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور میں بھی کئی ایک لبرل جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلائے جانے اور ان عدالتوں کے ذریعے شہریوں کو سزائے سنائے جانے کے عمل کو ناگزیر قرار دے کر اس کی حمایت کر رہی تھیں اور بعد ازاں جب جمہوری دور آیا تو جمہوری جماعتوں نے متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرتے ہوئے 21ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی جواز دیا اور اس طرح سے فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلین پر مقدمات چلائے جانے اور انھیں سزائیں سنانے کے عمل کی حمایت جاری رکھی۔

سن 2018ء میں جب پاکستان تحریک انصاف کو اس وقت کی فوجی قیادت نے ایک دھاندلی زدہ اور انجنئیرڈ انتخابات اور نتائج کو بدل کر اقتدار لایا گیا تب بھی پاکستان کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اپوزیشن کا حصہ تھیں نے شہریوں کے فوجی ٹرائل پر خاموشی اختیار کی۔ ایک بھی اپوزیشن سیاسی جماعت ایسی نہیں تھی جس نے ادریس خٹک سمیت شہریوں پر فوجی ٹرائل کی مذمت نہیں کی نہ اس مسئلے پر کوئی سیاسی تحریک چلائی۔ لیکن انھیں سیاسی جماعتوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 2021ء میں اسی فوجی قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے پی ٹی آئی کے ممبران کو فلور کراسنگ کرنے کے عمل کا ساتھ دیا اور بعد ازاں پی ڈیم ایم حکومت بناکر پوری ریاستی مشینری کے ساتھ پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت ختم کرنے، اسے الیکشن سے آوٹ کرنے اور تاریخ کے ایک اور بدترین انجنئیرڈ انتخابات کرانے اور پھر نتائج میں کھلے عام تبدیلی کرکے ایک متنازعہ ترین حکومتی سیٹ آپ کی تشکیل دینے کا جرم کیا۔

اس حکومت میں شامل جماعتیں اور اس کو اعتماد کا ووٹ دینے والی جماعتوں نے فروری 2008ء سے تادم تحریر پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت، کارکنوں اور اس کے عام شہری حامیوں کے خلاف فوجی اسٹبلشمنٹ کے بدترین کریک ڈاؤن اور شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں سے ٹرائل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ منافقت سے کام لیتے ہوئے ادریس خٹک کے ملٹری ٹرائل کو اپنی اس حمایت کے جواز کے لیے بھی پیش کیا جبکہ ادریس خٹک کا جب فوجی ٹرائل ہو رہا تھا تو تب یہ سب جماعتیں خاموش تھیں اور آج تک ان کی رہائی کے لیے یا ان پر سویلین عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے کوئی پیش رفت اس حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آئی۔

ایک جمہوریت پسند سیاسی کارکن کے لیے جمہوریت کی نام لیوا سیاسی جماعتوں کی یہ منافقت اور سمجھوتہ بازی قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے سابقہ دور میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی حمایت پر عوام سے معافی مانگنے چاہیے یہ بالکل ٹھیک مطالبہ ہے لیکن جو سیاسی دانشور پی ٹی آئی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کیا وہ یہ مطالبہ اس ملک کی فوجی جنتا سے بھی کرتے ہیں جن کی تاریخ سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کے خلاف نسل کشی، بربریت، ظلم اور جرم سے بھری پڑی ہے؟

اس وقت بھی ہزاروں شہری جبری گمشدہ ہیں۔ درجنوں ماورائے عدالت قتل ہوچکے ہیں اور اس ملک کی فوجی اور نیم فوجی ایجنسیوں پر اس وقت بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات ہیں اور یہ الزامات بے بنیاد نہیں ہیں اس کے حق میں سینکڑوں شہادت اور ثبوت موجود ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت اس پہ آواز بلند نہیں کر رہی اور نہ فوجی جنتا سے معافی کا مطالبہ کرتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی کی مخالفت اور اس کے ماضی کی غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکات کے سبب کسی غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کی حمایت یا خاموشی کا جواز تلاش کیا جاسکتا ہے؟ حال ہی میں 9 مئی کے واقعات کو بنیاد بناکر جن سینکڑوں شہریوں پر فوجی مقدمات بنائے گئے ہیں ان کا جواز کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے؟

پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتوں کو اپنی خود احتسابی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور انھیں اپنی غیر جمہوری روش کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے وگرنہ ہم نام نہاد جمہوریت سے کھلی آمریت کی طرف سفر کرتے رہیں گے اور آج پی ٹی آئی اور اس کے حامی معتوب ہیں تو کل کوئی اور جماعت اور اس کے حامی "معتوب" قرار پائیں گے۔

Check Also

Jamia Tur Rasheed Nayi Raahon Ka Ameen

By Abid Mehmood Azaam