Zanana Tashadad
زنانہ تشدد
(میری یہ تحقیق مڈل، میٹرک، گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ، ڈاکٹر، انجینیر صاحبان کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ کسی قسم کی مطابقت محض اتفاق ہوگی)
پاکستان میں مردوں کے مظالم کے بارے میں اتنا لکھا اور پڑھایا جارہا ہے کہ لگ رہا ہے کہ ہر دوسرا مرد وحشی النسل اور چنگیز خان کی نسل سے ہے اور شادی کے پہلے دن سے عورت کو لاتوں، گونسوں اور تھپڑوں پر رکھ لیتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس کے بارے میں کبھی لکھا ہی نہیں گیا۔
جناب عالیٰ! عورت جسمانی تشدد سے بڑھ کر جو تشدد کرتی ہے اس کے بارے میں قانون اور مورخ خاموش ہیں۔ اگر اس تشدد کے بارے میں لکھا جانے لگے اور ڈرامے فلمیں بننے لگ جائیں تو مرد اس کرہ ارض کی مظلوم ترین مخلوق قرار دی جائے گی۔ جگہ جگہ جلسے جلوس ہونے شروع ہوجائیں کہ مرد کوبچائیں۔
اب آپ لوگ پوچھنا چاہ رہے ہوں گے کہ "کون سا تشدد؟"
نادان پرندو! اس تشدد کا نام ہے "ذہنی تشدد"۔۔
بالفرض آپ کونے والی دکان سے دہی لانے جاتے ہیں اور موبائیل گھر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ واپسی پر آپ کو دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی چھوٹا بھائی یہ روح فرسا خوش خبری دیتا ہے کہ موبائیل سنسر بورڈ کے ہاتھوں میں ہے اور مزید انتباہ سے پہلے جھانسی کی رانی موبائیل پکڑے آپ کے سامنے آجاتی ہے۔
آپ کے دل کی دھڑکن خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے، ٹھنڈے پسینے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور فشار خون بھی خطرناک حد تک نیچے آجاتا ہے۔ اس نازک صورت حال اور آپ کی مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی تجربہ ڈاکٹر قریب موجود ہوتو وہ فوراً ایمبولینس منگوا کر آپ کو آئی سی یو بھجوادے گا لیکن آپ کے سامنے کھڑی ہستی کو سرتاج سے زیادہ اس نامعلوم نمبر کی فکر ہوگی جس پر پورے تیرہ منٹ اور چوبیس سیکنڈ بات ہوئی ہوتی ہے۔
وہ نمبر سامنے لہرایا جاتا ہے اور آپ کے اوسان مزید خطا ہوجاتے ہیں۔ آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ نمبر کہاں سے آگیا۔
طعنوں کی بوچھاڑ آپ کو سوچنے سمجھنے کا موقعہ نہیں دے رہی ہوتی ہے اور یکایک آپ کو یاد آجاتا ہے کہ آپ کے دوست سہیل نے یہ کال کی تھی اور آپ ایک سکون کی سانس لیتے ہیں جوکہ مزید خطرناک ہے کیونکہ ایک دم نارمل ہونا بھی ٹھیک نہیں لیکن اس جانچ پڑتال میں آپ کا چھٹی کا دن گیا۔
ایک شریف آدمی دفتر سے تھکاہارا گھر پہنچ کر کھانا کھاکر بچوں کے ساتھ بیٹھا کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ایک دکھ بھری آواز کانوں سے ٹکراتی ہے "بس میری حیثیت اتنی ہی رہ گئی ہے۔ صبح ناشتہ کرکے نکل جانا اور شام کو واپسی پر کھانا، موبائیل اور سوجانا۔ میرے لیے وقت نہیں ہے"
بندہ چھوٹے بیٹے کو کہتا ہے "یار! اپنے آئی پیڈ کی آواز کم کرلو" تو جواب آتا ہے "ڈرامے کا ڈائیلاگ ہے لیکن ماما! بول رہی ہیں"۔۔
اب بندہ سر پیٹ لیتا ہے۔ تبھی تو زیادہ تر شادی شدہ بندوں کے بال اڑجاتے ہیں۔
آپ کسی شادی پر جاتے ہیں اور ہنسی خوشی واپس آتے ہیں اور سونے کی تیاریوں کے دوران ایک پھولا ہوا منہ سامنے آجاتا ہے۔
"کیا ہوا؟" آپ سراسمیگی کی کیفیت میں پوچھتے ہیں۔
"میری تعریف نہیں کی آپ نے، میری سب سہیلیاں تعریف کررہی تھیں اور آپ باقیوں کی تو بڑا خوش ہوہوکر تعریف کررہے تھے بلا بلا۔۔ "
آپ کے دو گھنٹے اس جنگ کی نظر ہوگئے۔
بندہ ویک اینڈ پر بیوی بچوں کو ہوٹل لے جاتا ہے، بل دیتا ہے اور گاڑی میں آکر بیٹھتا ہے کہ چلو آج کوئی جھگڑا نہیں ہوا لیکن
ارےرکیے
ٹھہریے
سنیے تو سہی۔۔ بیگم اور آسانی سے خوش ہوجائے۔۔
"بالکل مزا نہیں آیا" آوازآئی۔
"اب کیاہوا؟"
"آپ نے سڑا سامنہ بنایا ہوا تھا۔ دوستوں کے ساتھ تو دانت نکال نکال کر تصویریں کھینچی جارہی ہوتی ہیں اور ادھر۔۔ "
باقی روزمرہ کے تشدد میں"موبائیل کا رنگ والیم کیوں کم ہے؟ خیر ہے صبح صبح گانے۔۔ وٹس آپ پڑھتے وقت مسکرا کیوں رہے ہیں؟ میرے آنے پر فیس بک کیوں بند کردی؟ آج کل دفتر بڑا تیار ہوکر جارہے ہو؟ کوئی خاص وجہ۔۔ دفتر جاکر فون کیوں نہیں کرتے۔۔ آج کل کوئی چکر تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ "
ویسے سب سے مہلک تشدد بدمزہ کھانا بنانے والی بیوی کا شوہر سے پوچھنا "کھانا کیسا بنا ہے" اور کسی دعوت پر جانے سے پہلے بیوی کا پورے آٹھ گھنٹے لگا کر تیار ہوکر، دعوت کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہنچنے کے لیے تیزی سے ڈرائیو کرتے ہوئے خاوند سے پوچھنا "میں کیسی لگ رہی ہوں"
یہ تو صرف چند مثالیں وگرنہ اس پر ضغیم کتب لکھی جاسکتی ہیں۔
اب آپ لوگ خود انصاف کریں کہ یہ تشدد نہیں تو کیا ہے؟
وہ کہتے ہیں تلوار کازخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان کا نہیں۔ اس لیے تمام خواتین سے دست بدست عرض ہے کہ شوہروں پر رحم کریں اور اچانک چھاپہ مار مہم سے باز رہیں وگرنہ آپ لوگوں کو پتا ہی ہے کہ دل کے امراض میں عموماً مرد ہی مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے ان پر رحم کریں اور "ذہنی تشدد" سے باز رہیں ورنہ۔۔
ورنہ کچھ بھی نہیں۔۔ ہم سب خاوند ہمیشہ کی طرح صبر کے کڑوے گھونٹ پیتے رہیں گے۔۔