Khudi, Flush Aur Hikmat
کھُڈی، فلش اور حکمت
آج کافی عرصے کے بعد ایک اچھوتا موضوع لے کر آپ کی معلومات میں اضافے کے لئے حاضرِ خدمت ہوں۔ نفیس طبع لوگ اس پوسٹ سے دور رہیں لیکن اسی اور نوے کی دہائی کے بچے اس دور سے لازمی واقف ہونگے اور اس کے علاوہ وہ بچے جنہوں نے کھڈی کا دور نہیں دیکھا ان کےلئے یہ پوسٹ معلومات کا خزانہ ہے۔
یہ اس دور کی بات ہے جب فلش سسٹم نہیں آیا تھا اور واش روم کے لئے بیت الخلا اور لیٹرین بلکہ بسا اوقات ٹٹی خانہ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی تھی۔
اس وقت لیٹرین میں کموڈ کی طرز پر تین چار اینٹوں کے اونچے اونچے دو کموڈ بنا دیے جاتے تھے لیکن وہ سامنے سے کھلے اور بغیر گڑھے کے چولہا نما ہوتے تھے (بعض اوقات پیچھے سے بھی کھلے ہوتے تھے) جنہیں کھڈی کہا جاتا تھا اور ان پر اکڑوں بیٹھا جاتا تھا۔ ایک کھُڈی پر ہگا جاتا تھا اور دوسری کھڈی پر بیٹھ کر موتا اور دھویا جاتا تھا لیکن یہ سہولت کچھ گھروں میں میسر تھی جن میں صاحب پوسٹ کا دولت کدہ بھی شامل تھا۔ وگرنہ کچھ گھرانوں میں ایک ہی کھڈی ہوتی تھی جس پر بیٹھ کر ہگا، موتا اور دھویا جاتا تھا۔
دوپہر کو جمعدار صاحب تشریف لاتے اور یہ ملبہ ایک ٹین کے ڈبے میں ڈال کر، لیٹرین کو اس کے باہر رکھے خصوصی گھڑے یا بالٹی میں موجود پانی سےاچھی طرح دھوکر چل دیتے۔ خیال رہے کہ یہ لیٹرین بالعموم چھت کے ایک کونے پر یا پھر کھلے صحن کے آخری کونے پر بنائے جاتے تھے (خیر سے اب یہ لیٹرین اپنا نام لیٹرین سے واش روم رکھ کر سونے والے کمرے یا دیوان خانے (ڈرائنگ روم) کے ساتھ منتقل ہوچکا ہے اور پیٹ خراب ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں دھماکوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مہمان کا پیٹ خراب ہے یعنی کہ ذاتی زندگی (پرائیویسی) ختم ہوگئی ہے)۔
وہ حضرات جو لیٹرین والی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے وہ رات کو لوٹے لئے کھیتوں کا رخ کرتے اور ہگنے کے ساتھ ساتھ اُدھر بیٹھ کر باہمی موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کرتے۔ میں اکثر حیرت سے ان سے پوچھتا کہ "سارا دن نہیں آتی؟ اور اگر آجائے تو کیا کرتے ہو"۔۔
ان کا جواب ہوتا "او بھائی بس رات کو آتی ہے"۔۔
ویسے آپس کی بات ہے مابدولت تو جتنی دفعہ کھاتے تھے اتنی ہی دفعہ نکالتے بھی تھے اور تبھی کبھی توند نہیں نکلی۔
اکثر بچے کھلے میدان میں ہی ہگ کر زمین پر گھسیٹی مار کر صفائی کا عمل پورا کرلیتے تھے۔ ایک دفعہ للو نے جب ہگ کر اپنا پچھواڑا ریت پر رگڑا تو اس میں موجود کانٹوں نے اس کی چیخیں نکلوادیں تھیں۔ ویسے اس سوغات کو اس وقت جنگل جلیبی بھی کہا جاتا تھا۔
ہمارے محلے میں اس دور میں ایک شخص نے جمعدار والے پیسوں کی بچت کے لئے زمین میں گہرا گڑھا کھود کر اوپر لکڑیاں رکھ کر دیسی فلش بنایا ہواتھا اور اس کے بھر جانے پر مٹی سے بند کرکے دوسری جگہ بنا لیتا تھا۔ ایک دفعہ یوں ہواکہ لکڑیوں کو دیمک لگ گئی اور وہ رفع حاجت کرتے ہوئے دھڑام سے اس میں جاگرا اور گرتے ہی اس نے فلک شگاف چیخیں مارنی شروع کردیں کہ "مجھے بچاؤ"۔۔ ہم سب اس کے آس پاس جمع تھا اور وہ اپنا لبڑا ہوا ہاتھ ہماری طرف بڑھا کر نعرہ لگاتا "مجھے بچاؤ" لیکن اگر ہم اس کو بچانے جاتے تو ہماری اپنی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا۔ مجبوراً جمعدار صاحب کو بلانا پڑا اور اس نے اس بندے سے پورے سال کی یکمشت تنخواہ وصول کی۔۔
اس دور کے حکماء اور ڈاکٹروں کے پسندیدہ سوالات اس قسم کے ہوتے تھے۔
"پاخانہ کس رنگ کا آتا ہے؟"
"پاخانہ نرم آتا ہے کہ سخت؟"
اگر سوال پوچھا جاتا کہ "نرم سے کیا مراد ہے" تو دوبارہ تفصیل سے سوال پوچھا جاتا کہ "حلوے کی طرح ہوتا ہے کہ کیلے کی طرح؟"
"کیڑے تو نہیں آتے پاخانے میں؟
ویسے بھی بندے کے پاس کوئی اور کام تو ہوتا نہیں تھا اسلئے وہ اس سوغات کا سر جھکائے بغور معائنہ کرتا رہتا اور ڈاکٹر یا حکیم کو مفصل معلومات فراہم کرتا۔ اس جائزے کےدوران یہ انکشاف بھی ہوا تھا عموماً اس کا رنگ پیلا ہوتا ہے لیکن ساگ کھانے کے بعد اس کا رنگ سبز ہوجاتا ہے۔
اب نہ وہ کھڈیاں رہیں نہ وہ ڈاکٹر اور حکماء جو ایسی معلومات کے بعد بالکل صحیح تشخیص کرتے تھے۔ ان بےچاروں کو اب لیبارٹری کے تجزیوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے بلکہ حکماء کی آدھی حکمت تو ختم ہوگئی ہے۔
کم ازکم اس پوسٹ کے بعد یہ ثقافتی ورثہ محفوظ ہوگیا ہے۔ اس پوسٹ پر برا بھلا اور برا منہ بنانے والے کو دائمی قبض یا پیچش لگ سکتے ہیں اسلئے دھیان سے منہ بنائیں۔ آپ لوگ بھی اپنی معلومات تبصرے میں فراہم کرسکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اس پوسٹ کو لائیک اور شئیر کرکے گالیاں سمیٹ سکتے ہیں لیکن ٹھہریے جاہل لوگوں نے تو گلیلیو کو بھی اس کی تھیوری پر گالیاں اور برا بھلا کہا تھا اس لئے گھبرانا نہیں۔۔