Hum Jins Parasti Aur Bache
ہم جنس پرستی اور بچے
یہ ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہر دوسرا بندہ نفرت کرتا ہے اور اس پر بات کرنا معیوب تصور کرتا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں بھی یہ بہت عرصے سے ہے اور ساٹھ ستر کی دہائی میں بھی ہم جنس پرستوں کے ڈھکے چھپے کلب بھی ہوتے تھے۔ اوائل اسی کی دہائی میں انہوں نے جلوس نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت کو بروقت خبر ملنے پر ان کا جلوس نکال دیا گیا۔
اس کے حمایت یافتہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ فطری ہے اور فطرتی جذبات پر آپ بند نہیں باندھ سکتے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ایک گناہ ہے اور اس کو فروغ نہیں دینا چاہیے۔ لیکن اس کا حل کیا ہے اس پر ہم سب بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ فی زمانہ اس کو عروج حاصل ہے اور باقاعدہ سوشل میڈیا پر پروفائیلز ہیں جس میں مختلف اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن کا میں نام نہیں لوں گا۔
اس کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟
کم سن بچے غلط کاموں کی طرف بہت جلد متوجہ ہوتے ہیں۔ والدین کو ان کے سامنے ایک دوسرے کو چھونے سے اجتناب کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ خلوت کے کام انتہائی خلوت میں سرانجام دیں۔ ویسے آج کل تو بہت فخر کے ساتھ ایک دوسرے کوجھپیاں پپیاں لیتے ہوئے تصاویر کھنچوائی جاتی ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ بچوں پر اس کا کتنا برا اثر پڑسکتا ہے۔ بہت سے کیسز میں چھوٹے بچے بڑوں کی دیکھا دیکھی ان کے والے کام ایک دوسرے کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق بہت سے سکول والے بھی کریں گے کہ جب انہوں نے انتہائی چھوٹے بچے یا بچیوں کو غلط کاموں کا ارتکاب کرتے دیکھا اور پوچھ گچھ پر یہی بات نکلی۔
اکثر بچوں کے ساتھ کمسنی میں بڑا بچہ یا کوئی بڑا غلط کاری کرتا ہے تو اس بچے پر اس کے بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔ پھر وہ بچہ دوسروں بچوں کو اس طرف راغب کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ برائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ سکولز میں بڑے بچے چھوٹے بچوں کو ڈرا دھمکا کر بھی اس کام پر مجبور کرتے ہیں اس لیے والدین کو اپنے بچےکے طرز عمل کا خیال رکھنا چاہیے۔
بچوں کے بورڈنگ سکولز اور دوسرے مدارس وغیرہ کے ہاسٹلز بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔ وہاں کے قیام پذیر بچوں کی اکثریت اس علت کا شکار ہوتی ہے (میری یہ باتیں وہ تمام بچے اچھے سے جانتے ہیں جو ان میں سے کسی ایک جگہ پر رہے ہوں)۔
ورکشاپس، ریستوران اور دوسری جگہ پر کام کرنے والے بچے بھی بہت کم بچ پاتے ہیں۔
آپ کو کیسے پتا چلے گا کہ آپ کا بچہ اس کام میں ملوث ہے؟ اگر چھوٹے بچے دروازہ بند کرکے یا کونے کھدرے میں گھس کر کھیلنے پر اصرار کریں تو انہیں سختی سے منع کریں۔ آپ بچہ سہما ہوا سا یا سکول جانے سے کتراتا ہوں۔ کبھی بھی بچوں کو اکیلے کمرے یا اکٹھا مت سلائیں۔
اکثر بڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ مزاق مزاق میں بچوں کو غلط جگہ پر چھوتے ہیں اگر آپ کے سامنے ایسا ہوتو سختی سے منع کریں۔ اگر آپ کا بچہ کوئی ایسی ویسی بات آپ کو بتاتا ہے تو غور سے سنیں۔ خاص طور پر چھوٹا بچہ اگر سکول کے کسی بچے کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہے تو اسے ڈانٹنے کی بجائے نارمل ہوکر بات سنیں۔ پھر اس کے علم میں لائے بغیر کلاس ٹیچر کو ان حالات سے آگاہ کریں۔ اگر آپ اس وقت اس کو ڈانٹیں گے تو وہ پھر کبھی آپ کو ایسی ویسی بات نہیں بتائے گا۔
بچے کو اور بالخصوص بالغ ہوتے بچے کو پیار سے چھوٹی چھوٹی چیزیں سمجھائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ بہت سے والدین اس چیز پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچہ دوسرے بچوں سے سمجھ لے گا۔ عقلمندوں دوسرے بچے کیا ماں کے پیٹ سے سمجھ کر آتے ہیں۔
اسلام نے ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا مطلب سمجھایا ہے یہاں تک کہ بچوں اور بچیوں کو پیار کرنے کے بارے میں رہنمائی کی ہے کہ کس عمر تک آپ ان کو ایک بچے کی طرح پیار کرسکتے ہیں۔
بہت سے سکولز میں انتہائی کم عمر بچے اور بچیاں اس برائی کا شکار پائے گئے ہیں۔ جس کی تائید سکول میں پڑھانے والے بھی کریں گے۔ خاص طور پر کرونا کے دنوں میں آن لائن والی پڑھائی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کم عمر بچے بچیوں کو موبائل اور نیٹ دینا مجبوری ہوگیا تھا۔ لیکن موبائل انٹرنیٹ کو کوسنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بیماری اس کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔ تمام والدین بچوں پر خود نظر رکھیں اور ڈھکے چھپے یا کھلے الفاظ جو وہ مناسب سمجھیں اپنے بچوں کو سمجھائیں اور اس علت کاشکار بچوں سے اپنے بچوں کودور رکھنے کی کوشش کریں۔
نوٹ: یہ بیماری دونوں جنسوں میں پائی جاتی ہیں لیکن میں نے بالخصوص بچوں کا ذکر صرف اس لیے کیا کہ لڑکیوں کے ہاسٹلز والی تحریر پر صرف "چند خواتین" کا کہنا تھا کہا کہ آپ صرف لڑکوں پر لکھیں اور لڑکیوں کے بارے میں مت لکھیں۔ اس لیے میں نے ان کا ذکر حذف کردیا۔ باقی آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ "چند خواتین" کون ہوسکتی ہیں جن کو اتنا غصہ آیا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے بچوں کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔