Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Gaye, Bhens Aur Gobar

Gaye, Bhens Aur Gobar

گائے، بھینس اور گوبر

کل مجھے کسی کام سے ملتان روڈ جانا تھا تو میں نے ڈیفنس روڈ پکڑا جو براستہ گجر کالونی، خیابان امین، ڈیفنس رہبر سے ہوتا ہوا ملتان روڈ پر پہنچ جاتا ہے۔ راستے میں گجر کالونی آئی تو کیا دیکھا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ گوبر کی پہاڑیاں بنی ہوئی ہیں جنہوں نے تقریباً ایک طرف سے آدھی سڑک کو ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پہاڑیاں تقریباً سات سو میٹر تک میری ہم سفر رہیں۔

گوبر کی یہ ناقدری دیکھتے ہوئے میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب ایک دن سکول سے واپسی پر میری نگاہ سڑک پر پڑی ایک اٹھنی (پچاس پیسے کا سکہ) پر جاپڑی تو میں آؤ دیکھا نہ تاؤ بجلی کی تیزی سے اسے اٹھانے کے لیے لپکا لیکن قبل اس کے میں اسے اٹھاتا ایک بھاری بھرکم وجود مجھ سے ٹکراگیا اور میں قلابازیاں کھاتا ایک طرف گرگیا۔

ہوش بحال ہوئے تو دیکھا مسماة پھاتاں ایک بھینس کی طرح مجھے گھور رہی تھی۔ "یہ میرا ہے"۔

"کیا تیرا ہے؟" میں نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ اٹھنی ابھی بھی وہیں پڑی تھی۔

"یہ گوں (گوبر) میرا ہے" وہ غرائی۔

اچانک میری نظر اٹھنی کے نزدیک پڑے گوبر پر پڑی "یا وحشت! تونے کب سے گوبر کرنا شروع کردیا" میں نے اس کی طرف بڑھتے پوچھا۔

"بکواس نہ کر، یہ گوبر میں نے لے کے جانا ہے"۔

"ہاں تیرا ہی ہے لیکن وہ دیکھ تیری بھینس کا گوبر کالو چوری کررہا ہے" میری بات سن کر اس نے اپنے بھانے (بھینسیں باندھنے کی جگہ) کی طرف جیسے ہی نگاہ کی، میں نے پلک جھپکتے میں اٹھنی اٹھائی اور نو دو گیارہ ہوگیا۔

محفوظ فاصلے پر پہنچ کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ جھولی میں گوبر اٹھا رہی تھی۔

جی ہاں جناب! یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے اور گاؤں کے لوگ شائید اس کی تائید بھی کریں۔

اکثر سکول سے واپسی پر کچھ لڑکے، لڑکیوں کی نظریں سڑک پرجاتے ہوئے ریڑھے میں جُتے ہوئے بیل یا سانڈ پر ہوتی تھیں۔ جیسے ہی انہوں نے بقضائے حاجت دم اوپر کی تو پہلے ہی نعرہ لگ جانا "یہ میرا " یہ میرا" جیسے گوبر نہ ہوا سوغات ہوگیا اور پھر دوڑ لگ جاتی کچھ تو پتھر یا اپنا جوتا نکال اس کی طرف پھینک دیتے کہ جس کا پتھر یا جوتا نزدیک ہوا گوبر اس کا۔

یقین کیجیے ان گناہ گار آنکھوں نے گوبر کے پیچھے خواتین کو ایک دوسرے کے بال پکڑتے اور جھگڑتے بھی دیکھا ہے۔

ویسے جتنے فوائد میں نے گائے بھینس کے دیکھے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور جانور میں نہیں ہے۔ دودھ، گوشت، اوجڑی، کھال، پائے، سری، زبان کو چھوڑیں، خالی اس کے گوبر کے اتنے فائدے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔

ہمارے پڑوس میں کورونا کا علاج "گائے موتر" اور "گائے گوبر" پارٹیوں کے ذریعے بھی کیاجاتا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو گوگل کرلیجیے۔

ہمارے دیہاتوں میں گوبر کو پاتھا یا تھاپا جاتا ہے اور اس عمل کے لیے تھاپنا اور پاتھنا دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں تھالی نما تھاپی یا پاتھی وجود میں آتی ہے۔

اگر مہذب الفاظ میں پوچھیں تو گوبر کو گوندھ کر اس کے پیڑے سے بنا کر پھر ان کو پیل کر جو تھالی سی بنائی جاتی ہے اسے پاتھی بولتے ہیں۔

خشک ہونے پر ان کو گوہے (اپلے) کہا جاتا ہے جو بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ اکثر روٹیاں کو توے سے اتار کر ان اپلوں پر براہ راست بھی سینکا جاتا ہے۔ یہ ایندھن لکڑیوں کے مقابلے میں بہت سستا ہے۔ بچپن میں جب میں اپنے دودھ والے کے گھر دودھ لینے جاتا تھا تو ان کا پورا گھر تھاپیوں کی خوشبو سے مہک رہا ہوتا تھا۔

جب تختی نئی نئی خریدی جاتی تھی تو سب سے پہلے اس کے اوپر گوبر کی لپائی کی جاتی تھی۔ اس مقصد کیلیے سب سے پہلے گجروں کے گھر جا کے گوبر اٹھا کے لایا جاتا تھا۔

برسات سے پہلے گوبر کو گارے میں ملایا جاتا تھا اور پھر اس لیپ کو پورے صحن اور دیواروں پر مل دیا جاتا تھا جو کہ سمینٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ سردیوں میں یہ تھاپیاں تسلے میں ڈال کر کمرے کے وسط میں رکھ دی جاتی تھیں۔ اس کے دھویں سے مچھر اور کیڑے مکوڑے ویسے ہی بھاگ جاتے تھے۔

چوپال میں بھی یہ گوہے سردیوں میں سلگائے جاتے تھے جو دیر تک سلگتے رہتے تھے اور تمام حضرات گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ صبح اس کی راکھ کو محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ یہ جادوئی راکھ برتن دھونے، زخموں پر لگانے کے کام آنے کے علاوہ اگر بچہ بیمار ہوتا تو تسلے میں ڈال کر اس کے نزدیک رکھ دی جاتی تاکہ وہ اس میں قے وغیرہ کرسکے۔ اس جادوئی راکھ کی وجہ سے الٹی کی بو زیادہ نہیں پھیلتی تھی۔ اس راکھ کو مرغیوں کے ڈربے میں بھی سردی کا اثر دور کرنے اور بیٹوں کو فرش پر چپکنے سے بچانے کے لیے بھی بچھایا جاتا تھا۔

گوبر کی کھاد کو ابھی بھی دوسری کھاد پر فوقیت حاصل ہے اور غیر ممالک نے اسے تسلیم بھی کیا ہے۔۔ کچھ عرصہ قبل جگہ جگہ گوبر پلانٹ (بائیو گیس پلانٹ) بھی لگے تھے جہاں گوبر کی مدد سے گیس بنا کر بطور ایندھن استعمال کی جاتی تھی۔

اگر کسی کی نکسیر بار بار پھوٹ جاتی تھی تو وہ سڑک پر پڑا گوبر تین دن سونگھتا تو اس کی نکسیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھوٹنا بند ہوجاتی تھی۔۔ جادو ٹونوں میں بھینس کا سر استعمال ہوتا ہے۔۔ گائے، بھینس، بکرے یا بکری کے دست یعنی شانے کی ثابت ہڈی، کالے جادو اور سفلی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قصاب ہمیشہ اس پتلی اور چپٹی ہڈی کو گوشت سے الگ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔

ویسے حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی سے گوبر کے استعمال کے بارے میں سوچے اور کم از کم گوالہ کالونیوں کو گیس کی سہولت نہ فراہم کی جائے تاکہ وہ کم ازکم گوبر سے ساری کالونی نہ بھریں بلکہ بائیو گیس پلانٹ لگا کر اپنے علاقے کے لیے گیس خود فراہم کریں۔

اچھا اب آپ لوگ گوبر کے اتنے فوائد سن کر اپنا کھلا ہوا منہ بند کریں اور اگر کچھ مزید فوائد پتا ہیں تو ہمارے ساتھ بانٹیے۔

آپکا بے ادب لکھاری۔۔

Check Also

Kis Se Munsafi Chahen?

By Muhammad Waris Dinari