Bandar Killa
بندر کلا
آج کل کے شہری بچوں کو بندر کلا یا باندر کلا کا کم ہی پتا ہوگا۔ اس میں کھلاڑیوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہوتی تھی۔ پہلے پگا جاتا تھا۔ پگنے کے لیے تین کھلاڑی اپنا اپنا ہاتھ الٹا سیدھا کرتے تھے اور جس کا ہاتھ مختلف ہوتا تو وہ پگ جاتا اور اگلا لڑکا آجاتا پھر جو پھاڈی یعنی آخری نمبر پر آتا وہ بندر بن جاتا۔
پُگنے کے بعد زمین میں لکڑی کا کِلا یا کھونٹہ ٹهونک کر اس کے ساتھ چار پانچ فٹ کی رسی باندھ کر کِلے کے چاروں اطراف گھوم کر دائره بنا لیا جاتا اور رسی کا دوسرا سرا بندر بننے والے لڑکے کے ہاتھ میں دے کر کلے کے پاس سب کھلاڑیوں کے جوتے اُتروا کر رکھ دیے جاتے تھے۔ پھر بندر کو ایک دھائی یعنی ٹارگٹ دیاجاتا تھا جو کوئی دیوار یا درخت ہوتا تھا جس کو جوتے اٹھائے جانے کی صورت میں بھاگ کر جوتوں کی برسات سے بچتے ہوئے ہاتھ لگانا ہوتا تھا۔ اس دھائی کو ہاتھ لگانے پر جوتوں کی مار ختم اور باندر کلے پر واپس۔۔
لوجی کھیل شروع ہوا، بندر رسی پکڑے گھوم رہا اور چاک و چوبند کھلاڑی اس تاڑ میں بھاگ کر پیر مار کر کوئی جوتا دائرہ سے باہر نکال لیں۔ مسئلہ صرف پہلے جوتے کو نکالنا ہوتا تھا کیونکہ باقی جوتے دوسرے جوتے کی مدد سے مار کر بھی نکال لیے جاتے تھے۔ اس دوران اگر کسی کھلاڑی کو جوتا اٹھاتے ہوئے بندر کاہاتھ لگ جاتا تو وہ باندر۔۔
اب تمام جوتے اٹھائے جاچکے ہیں سوائے ایک جوتے کے بعض اوقات بندر اس جوتے کے اٹھائے جانے سے پہلے ہی رسی چھوڑ کر بھاگ جاتا کہ تمام کھلاڑیوں کی توجہ آخری جوتے کی طرف ہوتی تھی لیکن اس صورت میں اسے واپس لایا جاتا کہ کہ بھائی جوتا دائرے سے باہر نہیں نکلا۔
اللہ اللہ کرکے آخری جوتا جیسے ہی دائرے سے باہر نکلتا تو باندر تیزی سے دھائی کی طرف بھاگتا اور تمام کھلاڑی جوتے ہاتھوں میں لیے دھڑا دھڑ اس پر برسا رہے ہوتے تھے۔ یہ برسات اس وقت تک برستی جب تک وہ مقررہ مقام پر نہ پہنچ جاتا۔ میں عام طور پر اس مقام سے پہلے جوتے لے کر باندر کے استقبال کے لیے کھڑا ہوتا تھا۔ پھر واپس آکر دوبارہ باندر رسی لے کر کھڑا ہوجاتا۔
باندر کی جاں بخشی اس وقت تک نہ ہوتی تھی جب تک وہ کسی کو چھو نہ لے۔
ویسے آج کل کے بچوں کی یہ چھترول ہو تو وہ ویسے ہی چار دن بستر سے نہ اٹھیں۔